عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ اس تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ واجب و نفل ہونے کے دلائل میں تعارض ہے اس لئے وجوب ثابت نہیں ہوسکتا اور اب عمرہ صرف حضورِ انور ﷺ و اصحابِ کرام و تابعینِ عظام کافعل ہونا باقی رہ گیا اور اس سے اس کا سنت ہونا ثابت ہوا چنانچہ یہی ہم نے بھی کہا ہے واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۶؎ (۲) اور مراد یہ ہے کہ عمرہ میں ایک مرتبہ عمرہ کرنا سنت ہے پس جس شخص نے اپنی تمام عمر میں ایک مرتبہ عمرہ کرلیا تو اس نے اس سنت کو ادا کرلیا، اس کے لئے کوئی معین نہیں ہے، سوائے ان ایام کے جن میں عمرہ کرنے کی ممانعت وارد ہے (جیسا کہ آگے آتا ہے ) باقی تمام سال میں جب چاہے کرسکتا ہے لیکن رمضان المبارک میں عمرہ کرنا افضل ہے یہ افضلیت عمرہ کے بارے میں ہے (یعنی اور دنوں میں صرف عمرہ کرنے سے رمضان المبارک میں عمرہ کرناافضل ہے ) پس یہ قران کے افضل ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ قران حج ہے نہ صرف عمرہ پس حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی صرف عمرہ افضل طریقہ پر ادا کرنا چاہے تو رمضان المبارک میں کرے اور اگر حج افضل طریقہ پر کرنا چاہے تو حج کو عمرہ کے ساتھ قران کرے ( یعنی حج و عمرہ کا احرام باندھے) ۷؎ (یہ بات عمرہ کے وقت میں بھی مذکور ہے ، مؤلف) (۳) تمام عمر میں بکثرت عمرے کرنا بالا جماع چاروں ائمہ کے نزدیک مستحب ہے اور تمام سال میں بھی کثرت سے عمرے کرنا مکروہ نہیں ہے بلکہ تین امامو ں ، امام ابو حنیفہ و امام شافعی وامام احمد رحمہم اﷲ اور جمہور فقہا کے نزدیک مستحب ہے خاص طور پر رمضان میں کثرت سے عمرے کرنا مستحب ہے اور امام مالکؒ کا اس میں اختلاف ہے ۱؎ پس جمہور فقہا کے نزدیک ایک سال میں کئی عمرے کرنا جائز ہے ۲؎ بلکہ اپنی استطاعت کے موافق