عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بہت سے عمرے کرنا مستحب ہے ۳؎ اور امام مالکؒ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ ایک سال میں ایک عمرہ کرنا مستحب ہے اور ایک سے زیادہ عمرے کرنا مکروہ ہے لیکن اگر کوئی شخص ایک سال میںمختلف مقامات سے کئی دفعہ مکہ معظمہ میں داخل ہوتو اس کو ہر دفعہ عمرہ کا احرام باندھ کر آنا واجب ہے اھ ۴؎ اور ہمارے فقہا کی دلیل یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو ایک سال میں دو دفعہ عمرہ کرایا ہے اور آنحضرت ﷺ کے بعد بھی حضرت عائشہ ؓ نے ایک سال میں دو عمرے کئے، اور ایک روایت میں ہے کہ تین عمرے کئے اور حضرت ابن عمررضی اﷲ عنہمانے کئی سال تک ہر سال دو عمرے کئے ہیں اس کو امام شافعیؒ نے روایت کیاہے جیسا کہ حاشیہ ابن حجر میں ہے ۵؎ (۴) طواف بکثرت کرنا عمرے بکثرت کرنے سے افضل ہے کیونکہ طواف ایسی عبادت ہے جو بالذات مقصود ہے اور یہ تمام حالات میں مشروع ہے جبکہ ایک سال میں کثرت سے عمرے کرنا بعض فقہا کے نزدیک مکروہ ہے نیز بعض فقہا کے نزدیک عمرہ آفاقی ہی کے لئے مخصوص ہے اور ان کے نزدیک اہلِ مکہ کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ حل کی طرف نکلیں اور عمرہ کااحرام باندھیں ۶؎ اور جب علامہ قاضی ابراہیم بن ظہیرہ مکیؒ سے دریافت کیا گیا کہ طواف افضل ہے یا عمرہ تو انہوں نے فرمایا ارجح یہ ہے کہ طواف کو عمرہ پر فضیلت اس وقت ہے جبکہ اتنا وقت طوافوں میں مشغول رہے جتنے وقت میں عمرہ ادا کرے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ عمرہ فرضِ کفایہ واقع ہوتا ہے تو پھر حکم اس طرح نہیں ہوگا ۷؎ (یعنی اگر عمرہ کا فرضِ کفایہ واقع ہونا مان لیا جائے تو عمرہ طواف سے افضل ہوگا، مؤلف) بعض فقہا نے کہا ہے کہ سات طواف کرنا ایک عمرہ کی مانند ہے ۸؎ اور بعض روایت میں وارد ہے کہ تین عمرے ایک حج کی مانند ہیں اور بعض روایت میں ہے کہ دو عمرے ایک حج کی مانند