عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
۹؎ ان روزوں کا لگاتار ہونا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا پس اگر ان کو متفرق طور پر رکھا تو جائز ہے ۱۰؎ (۳) یہ تین روزے قربانی کے دن یعنی دسویں ذی الحجہ سے پہلے ادا ہونے چاہئیں، پس اگر کسی نے دسویں ذی الحجہ سے پہلے ایک بھی روزہ نہیں رکھا یا صرف ایک یا دو روزے رکھے حتیٰ کہ قربانی کا دن شروع ہوگیا تو اس نے بدل یعنی روزوں کو فوت کردیا پس جو رکھے ہیں وہ بھی باطل ہوگئے یعنی بدل کی جگہ شمار میں نہیں آئیں گے اور اب اس پر اصل یعنی ہدی کا ذبح کرنا ہی واجب ہوگا اب وہ ہدی ذبح کئے بغیر حلال نہیں ہوگا اور یہ اس سے تمام عمر میں ادا کئے بغیر ساقط نہیں ہوگی اس لئے جب بھی اس پر قادر ہوجائے مکہ معظمہ میں ذبح کرائے اور اس کے لئے ان تین روزوں کو قربانی و تشریق کے ایام میں رکھنا جائز نہیں کیو نکہ ان دنوں میں روزہ رکھنا ممنوع ہے اور اب ان کا وقت بھی فوت ہوچکا ہے اس لئے ان ایام کے بعد میں بھی رکھنا جائز نہیں ہے ۱۱؎ لہٰذا اگروہ اس وقت ہدی پر قادر نہ ہوتو وہ بال منڈاکر حلال ہوجائے اور اس پر دو دم واجب ہوں گے ایک دم تمتع کا اور دوسرا ذبح سے پہلے حلال ہونے کا ۱۲؎ اور اسی طرح قارن اگر ( یہ تین روزے نہیں رکھ سکا کہ وقت نکل گیا ور وہ ) اس وقت ہدی پر قادر نہیں ہے تو بال منڈاکر حلال ہوجائے اور اس پر بھی دو دم واجب ہوں گے ایک دم قران کا بالاجماع اور دوسرا ذبح سے پہلے حلق کرانے کا، یہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک واجب ہوگا اور صاحبین کے نزدیک یہ دم واجب نہیں ہوگا بلکہ صرف ایک دم یعنی دمِ قران ہی واجب ہوگا اور ذبح کو حلق سے مؤخر کرنے کی وجہ سے اس پر کچھ واجب نہیں ہوگا( اس مسئلہ پر بحر الرائق و منحۃ الخالق میں طویل کلام کیا ہے پس مزید تفصیل کے لئے ان کی طرف رجوع فرمائیں ، مؤلف)