عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہمارے فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان تین روزوں کو احرامِ حج کے بعد اس طرح متواتر رکھنا آخری روزہ عرفہ کے دن کا ہو مستحب ہے۳؎ یعنی لگاتار ۷،۸،۹ ؍ذی الحجہ کو یہ روزے رکھے اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان تین روزوں کو ہدی کا بدل قراردیا ہے اور بدل کے لئے افضل وقت اصل سے ناامیدی کا وقت ہے کیونکہ اس سے پہلے اصل پر قدرت حاصل ہونے کا احتمال ہے اور یہ تین دن ہمارے نزدیک ان روزوں کے لئے آخری وقت ہے ۴؎ لیکن اگر کسی حاجی کو آٹھویں اور نویں ذی الحجہ کا روزہ رکھنے سے منیٰ و وقوفِ عرفات کے لئے سفر کرنے اور دعاؤں وغیرہ میں ضعف لاحق ہونے کا باعث ہوتو اس کو ان دنوں میں روزہ نہ رکھنا اور ان دنوں سے پہلے رکھ لینا مستحب ہے حتیٰ کہ بعض فقہا کے نزدیک اگر ان دنوں میں روزہ رکھنا ان دنوں کا حق بجالانے میں کمی کمزوری کا باعث ہوتو ان دنوں میں روزہ رکھنا مکروہ ہے ۵؎ اور یہ کراہت تنزیہی ہے کیونکہ اس سے اس بابرکت وقت کے اہم امور ادا کرنے میں خلل واقع ہوگا لیکن اگر یہ اس کے لئے بدخلقی کا باعث ہو جس سے وہ محظور و ممنوع کا مرتکب ہونے لگے تو مکروہ تحریمی ہوگا اور یہی حکم آٹھویں ذی الحجہ کے روزہ کا بھی ہے اس لئے کہ یہ بھی اسکو افعالِ حج کی ادائیگی سے عاجز کردے گا ۶؎ حاصل کلام یہ ہے کہ جس قدر آخری دنوں میں ان تین روزوں کو رکھے گا اس کے لئے افضل ہوگا کیونکہ اس وقت تک اصل پر قدرت حاصل ہونے کا احتمال ہے ۷؎ یعنی آخری وقت تک اس امید پر تاخیر کرنا کہ شاید ہدی میسر آجائے مستحب ہے ۸؎ کیونکہ اگر اس نے ساتویں ذی الحجہ سے پہلے ان روزوں کو رکھ دیا تو اصل یعنی ہدی پر قدرت حاصل ہونے کا احتمال ہے پس اگر ہدی مل گئی تو اس پر اس کا ذبح کرنا واجب ہوگا اور اس کے وہ روزے ہدی کے بدل کی جگہ شمار نہیں ہوں گے اس لئے ان ایام تک تاخیر کرنا مستحب ہوا