عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
سے پہلے کے ایام میں پیادہ پارمی کرنا افضل ہے تو یہ ایک بادلیل بات ہے کیونکہ عام عادت کے مطابق وہ اس وقت مکہ مکرمہ کی طرف جانے والا ہے اور اکثر لوگ سوار ہوکر مکہ مکرمہ کو جارہے ہوتے ہیں اس لئے سوار ہوکر آخری جمرہ کی رمی کرنے میں کسی کو ایذا نہیں ہوگی معہذا اس کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع بھی حاصل ہوجائے گا۔ علامہ شامی لکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں آخری دن کی جمرئہ عقبہ کی رمی کے بعد اس کا سوار ہونا دشوار ہے اکثر ایسی صورت میں کثرتِ ہجوم کے باعث وہ اپنے محمل (سواری) سے بھٹک جائے گا پس اگر یوں کہا جائے کہ آخری روز تمام جمعرات کی رمی سوار ہوکر کرے تو یہ بھی اس کے لئے ایک دلیل ہے کیونکہ اس طرح اس کو تمام جمعرات پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اتباع اپنے یا کسی دوسرے کے اوپرکسی ضرر کے بغیر حاصل ہوجائے گا اس لئے کہ اس روز سب کی عادت یہ ہے کہ اپنی اپنی منزل سے سوار ہوکر مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں لیکن اس دن کے علاوہ باقی دنوں میں تمام جمرات پر پیدل چل کر رمی کرنا افضل ہے ۵؎ (اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ پیدل چل کر یا سوار ہوکر رمی کرنے کی فضیلت کا انحصار زمانہ کے حالات پر ہے اور ہمارے زمانہ میں مناسب یہ ہے کہ تمام ایام میں تمام جمرات کی رمی پیدل چل کر کرنا ہی افضل ہے سوائے اہلِ حکومت کے کیونکہ وہ جس طرح چاہیں رمی کرسکتے ہیں واﷲ اعلم،مؤلف) (۵) رمی کے جمرہ سے قریب یا بعید ہونا شرط نہیں ہے بلکہ جس جگہ سے بھی رمی کرے گا اس کی رمی صحیح ہوجائے گی لیکن سنت یہ ہے کہ جمرہ سے پانچ ہاتھ یا اس سے زیادہ فاصلہ پر کھڑا ہوکر رمی کرے اس سے کم فاصلہ سے رمی کرنا مکروہ ہے ۶؎