عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
لازم ہوں گے اور چوتھے دن کا آفتاب غروب ہوتے ہی قضا کا وقت فوت (ختم ) ہوجائے گا ( اور صرف واجب ہوگا، مؤلف) ۵؎ اور اگر تمام دنوں کی رمئ جمار کو چوتھے دن تک مؤخر کردیا تو ان کو ایام وجمرات کی ترتیب سے رمی کرے کیونکہ ایامِ تشریق سب کے سب رمی کا وقت ہیں پس و ہ ان کو مسنون طریقہ پر ترتیب وار قضا کرے اور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس پر ایک ہی دم واجب ہے کیونکہ جنایات ایک ہی جنس میں جمع ہوئی ہیں پس ان کے متعلق ایک ہی کفارہ واجب ہوگا اور اگر ان کو قضا نہ کیا یہاں تک کہ ایامِ تشریق کے آخری دن یعنی رمی کے چوتھے روز کا آفتاب بھی غروب ہوگیا تو رمی کا وقت گزرجانے کی وجہ سے رمی کا قضا کرنا اس سے ساقط ہوگیا اور بالاتفاق اس پر ایک ہی دم واجب ہوگا ۶؎ پس اگر کسی نے قربانی کے پہلے یا دوسرے یا تیسرے دن کی رمی نہیں کی تو اسی دن کے بعد آنے والی رات میں رمی کرلے اس پر کوئی جزا لازم نہیں ہے البتہ ترکِ سنت کی وجہ سے مکروہ وبرائی کا مرتکب ہوگا جبکہ اس کو کوئی عذر نہ ہو ، اگر عذر سے ایسا کیا تو مکروہ بھی نہیں ہے اور اگر گیارہویں یا بارہویں یا تیرہویں شب کو اس شب کے بعد آنے والے دن کی رمی کی تو صحیح نہیں ہے کیونکہ ایامِ حج میں راتیں گزرے ہوئے دن کے تابع ہیں ، آنے والے دن کے تابع نہیں ہیں پس قربانی کے دوسرے دن کی رمی تیسرے دن سے پہلے کی رات میں جائز ہے اور اس رات میں تیسرے دن کی رمی جائز نہیں ہے جیسا کہ وقوفِ عرفہ دسویں ذی الحجہ کی شب میں جائز ہے اور اس رات میں دسویں ذی الحجہ کے دن کے افعالِ حج یعنی وقوفِ مزدلفہ ورمی وغیرہ جائز نہیں ہیں، اوراگر ایامِ رمی میں سے کسی دن کی رمی اس دن کے بعد والی رات میں بھی نہ کی تو بالاتفاق آنے والے دن میں ترتیب وار قضا کے طور پر رمی کرے اور امام صاحب ؒ کے نزدیک اس پر کفارہ یعنی دم بھی