عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ساتھ جواز کا وقت مغرب سے شروع ہوکر اگلے دن کی صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے تک ہے، اگر کسی عذر کی وجہ سے اس وقت میں رمی کرے تو مکروہ نہیں اور اگلے دن تک مؤخر کیا تو اس پر دم واجب ہوگا اور ایامِ رمی میں کسی دن اس کو قضا کرنا لازم ہوگا ۷؎ (۲) قربانی کے دوسرے اور تیسرے دن یعنی گیارہویں وبارہویں ذی الحجہ کو تینوں جمرات پر رمی کرنے کا وقتِ جواز زوالِ آفتاب سے شروع ہوتا ہے، زوال سے پہلے مشہور قول یعنی ظاہر الروایت کی بنا پر جائز نہیں ہے اور جمہور اصحابِ متون وشروح وفتاویٰ اسی پر ہیں اور یہی درست ہے اور آخری وقت اگلے دن کی صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے تک ہے ان دونوں دنوں میں رمی کا مسنون وقت زوال سے غروب آفتاب تک ہے اور مغرب سے طلوعِ فجر سے پہلے تک کا وقت مکروہ ہے (لیکن اگر عذر سے ہو تو مکروہ نہیں ہے ، مؤلف) اور جب فجرطلوع ہوگئی تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک رمی کا وقتِ ادا جاتا رہا اور اس کا وقت ِ قضا بالاتفاق ایامِ تشریق کے آخر تک باقی رہے گا پس اگر ہر روز رمی کو اس کی ادا کے معینہ وقت سے مؤخر کردیا تو اس پر قضا اور جزا دونوں لازم ہوں گے اور قضا کا وقت چوتھے روز کا آفتاب غروب ہونے پر فوت ہوجائے گا (اور اب صرف جزا یعنی دم واجب ہوگا، مؤلف) ۱؎ (۳) چوتھے روز یعنی تیرہ ذی الحجہ کو تینوں جمروں پر رمی کرنے کا وقت صبح صادق سے مغرب تک ہے لیکن زوال سے پہلے کا وقت مکروہ ہے اور زوال کے بعد سے غروب تک کا وقت مسنون ہے یہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہے اور اس روز کا آفتاب غروب ہوتے ہی بالاتفاق ادا و قضا دونوں طرح کا وقت فوت ہوجائے گا بخلاف ما قبل کے ایام کے ۲؎ پس اس سے ظاہر ہو اکہ رمی کے لئے ادا کا وقت بھی ہے اور قضا کا بھی ۳؎ پس قربانی کے پہلے