عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کوئی فقیہ و عالم اس مسئلہ کے درپے ہو ا ہو لیکن یہ ظاہر قیاس ہے کوئی ماہر فقیہ اس کا انکار نہیں کرے گا اس لئے کہ یہ دونوں امور یعنی وقوفِ عرفہ کا دن میں ہونا اور وقوفِ مزدلفہ کا صبح صادق طلوع ہونے کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے کسی وقت ہوناواجب ہیں اور مذکورہ صورت میں دونوں کا عذر ایک ہی ہے ۲؎ اور فقہا ئے شافعیہ رحمہم اﷲ نے اس بات کی تصریح کردی ہے کہ اس سے اس پر کچھ لاز م نہیں ہوگی اور انہوں نے اس کی تعلیل یہ بیان کی ہے کہ اس کا واجب ہونا ان لوگوں کے حق میں ہے جو فارغ ہوگئے ہیں اور یہ شخص تو ابھی اس سے پیچھے رہ جانے کی طرف مجبور ومحتاج ہے ۳؎ وقوفِ مزدلفہ کے لئے بھی وقوفِ عرفہ کی طرح نیت شرط نہیں ہے پس اگر کوئی شخص وقوفِ مزدلفہ کے وقت میں یعنی طلوعِ فجر کے بعد سے طلوعِ آفتاب تک مزدلفہ میں کسی وقت رات گزارے یا ٹھیرے بغیر گزرا تو جائز ہے اور اس پر کوئی جزا لازم نہیں ہے کیونکہ اس کو وقوف ِ عرفہ کی طرح مقدارِ واجب وقوف گزرنے کے دوران حاصل ہوگیا اور اگر کسی شخص نے امام کے مزدلفہ سے طلوعِ آفتاب سے پہلے روانہ ہونے کے بعد وقوف کیا یا امام سے پہلے یا امام کے بعد یا لوگوں سے پہلے یا طلوعِ فجر کے بعد وقوف کرکے مزدلفہ میں نمازِ فجر ادا کرنے سے پہلے روانہ ہوگیا تو جائز ہے اور اس پر کچھ لازم نہیں ہے لیکن اس نے بُرا کیا کیونکہ اس نے طلوعِ آفتاب تک وقوف کو دراز کرنے، مزدلفہ میں نمازِ فجر ادا کرنے اور مزدلفہ سے امام کے ساتھ روانہ ہونے کی سنتوں کو ترک کیا ہے ۴؎ اسی طرح اگر کوئی شخص سورج نکلنے کے بعد روانہ ہوا تو اس پر کچھ لازم نہیں ہے لیکن وہ ترکِ سنت کی برائی کا مرتکب ہوگا ۵؎