عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
امام شافعیؒ نے اس کو واضح ومحقق فرمایا ہے کہ مسجدِ نمرہ عرفات میں داخل نہیں ہے جس نے یہاں وقوف کیا اس کاوقوف صحیح نہیں ہے اور تمام عراقیین و غیر ہم اسی پر ہیں اور خراسیین کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ اس مسجد کا وادی عرنہ کی جانب کا اگلاحصہ عرفا ت میں داخل نہیں ہے حتیٰ کہ اگر مسجد کی غربی دیوار گر پڑے تو وہ وادی عرنہ میں گرے گی اور اس کا آخری حصہ عرفات میں ہے اسی لئے انھوں نے کہا ہے کہ جس نے غربی طرف کے اگلے حصہ میں وقوف کیا اس کا وقوف صحیح نہیں ہو گا اور جس نے اس کے آخری حصہ میں وقوف کیا اس کا وقوف صحیح ہو جائے گا ۲؎ نیز جاننا چاہئے کہ عرفات مکہ معظمہ سے مشرق کی جانب تقریباً نو میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور منیٰ سے تقریباً چھ میل ہے یہی لوگوں میں مشہور اور اکثر کتب فقہ و تاریخ وغیر ہ میں مشہور و مذ کور ہے ۳ ؎ یہ ایک بہت بڑا میدان ہے اور بطن عرنہ ایک وادی ہے جو عرفات سے متصل مغرب یعنی مکہ مکرمہ کی جانب واقع ہے اور دائیں بائیں دراز ہوتی گئی ہے یہ وادی نہ عرفات میںداخل ہے نہ حرم میں بلکہ دونوں کے درمیان حد فاصل ہے اور یہ حدود عرفات کے عَلَمین ( دو نشانات) اور حدودِ حرم کے عَلَمین ( دو نشامات) کے درمیان مأ زمین کے آخری سرے پر واقع ہے جبکہ مسجد عرفہ کے مغرب کی طرف چلیں، امام ناطفی ؒ نے روضہ میں کہا ہے کہ عرنہ داخلِ عرفہ نہیں ہے اور عرنہ و عرفہ دونوں داخل حرم نہیں ہیں اھ بعض نے کہا ہے کہ عرنہ داخلِ عرفات ہے صاحب بدائع بھی اسی طرف مائل ہے اور بعض نے کہا کہ حدودِ حرم میں داخل ہے ۴؎ الباجی ؒ نے ابن حبیب ؒ سے حکایت کی ہے کہ عرفہ حل میں ہے اور عرنہ حرم میں ہے ۵؎ اس سے معلوم ہوا کہ اس میں اختلاف ہے ، وادی عرنہ عرفات کا حصہ ہے یا حرم کایا دونوں سے خارج ہے اور اس بارے میں تین قول ہیں جوا وپر بیان ہوئے ۶ ؎ اور