عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مستحب ہے اور بعض نے کہا کہ ایسے شخص کو روزہ رکھنا مکر وہ ہے اور یہ کراہت تنزیہی ہے تاکہ اس کے اخلاق پر برا اثر نہ پڑے اور وہ کسی لائق اجتناب یا کسی ممنوع فعل کا مرتکب نہ ہو جائے اور یہی حکم آٹھویں ذی الحجہ کے روزہ کا بھی ہے کیونکہ اس دن کا روزہ اس کو افعال حج کی ادائیگی سے عاجز کر دیگا اھ اور حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺنے کمال قدرت و طاقت کے باو جود عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھا اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ آپ نے امت سے حرج و مشقت کو دور کرنے کے لئے ایسا عمل فرمایا لیکن آپ نے کسی کو اس دن کا روزہ رکھنے سے منع نہیںفرمایاپس روزہ رکھنا مکر وہ ہونے کی مطلق طور پر کوئی وجہ نہیں ہے البتہ خانیہ میں جو مذ کور ہے کہ عرفہ اور آٹھویں ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنا مکر و ہ ہے کیونکہ یہ افعال حج کی ادائیگی سے عاجز کر دے گا تو یہ اس بنا پر ہے کہ اکثر ایسا ہو تا ہے ،پس یہ کرمانی کے اس قول کے منافی نہیں ہے کہ حاجی کے لئے عرفہ کے دن روزہ رکھنا ہمارے نزدیک مکر وہ نہیں ہے لیکن اگرا دائے منا سک میں کمزوری کا باعث ہو تو اس کا ترک کرنا اولیٰ ہے ۴؎ حد یث شریف میں آیا ہے کہ عرفہ کا روزہ دو سال کے لئے کفارہ ہے ایک سال گذشتہ کا اور ایک سال آئندہ کا، رواہ مسلم عن ابی قتادۃؓ(یہ حکم مطلق حاجی و غیر حاجی دونوں کے لئے ہے ، مؤلف ) لیکن رسول اﷲ ﷺنے جواز کی تعلیم اور امت سے حرج کو دور کرنے کے لئے عرفہ کے دن کا روزہ نہیں رکھا تھا ۵؎۔ (۱۸) اگر عذر نہ ہو اور دعاو ذکر وغیرہ سے اس کے دل کو بے تو جہی نہ ہو تو وقوف کے وقت دھوپ میں کھڑا ہونا ، پس وقوف کے وقت دھوپ سے بچنے کے لئے سایہ نہ کرے اور اگر عذر ہو اور دعا وغیرہ میں دل نہ لگے تو سایہ میں وقوف کرلے ۔