عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گواہوں نے امام کے سامنے ذی الحجہ کے چاندکی گواہی دی اور ان دونوں کی گواہی اس لئے ردکردی گئی کہ آسما ن پر علت نہیں ہے ( یعنی مطلع صاف ہے ) پھر ایک جماعت نے ان دونوں کی گواہی پر امام سے قبل وقوف عرفہ کیا تو ان کا وقوف جائز نہیں ہوگا کیونکہ امام نے ( ان دونوں کی گواہی کورد کرتے ہوئے) وقوف کو اس لئے مئوخر کیا ہے کہ اس کو اس پر عمل کرنا شرعاً جائز تھا پس یہ ایسا ہو گیا جیسا کہ اگر وہ اشتباہ کی صورت میں مئوخر کرتا تو جائز تھا ۲؎ (۵) اور اگر تین یا زیادہ عادل گواہوں نے چاند دیکھنے کی گواہی ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں دی اور امام کی رائے یہ ہو ئی کہ جب تک کثیر جماعت گواہی نہ دے وہ ان کی گواہی قبول نہیں کرے گا ، وہ اپنی رائے پر قائم رہا اور اس روز وقوف عرفہ کیا جوان گواہوں کی گواہی کے مطابق دسویں ذی الحجہ کا دن تھا اور لوگوں اوران گواہوں نے بھی اسی روز وقوف کیا تو جائز ہے اور اگر ان گواہوں نے امام کی مخالفت کی اور اس سے ایک روز پہلے ( یعنی اپنی گواہی کے مطابق ) وقوف کر لیا تو ان کا وقوف جائز نہیں ہے ۳؎۔…(۶) اگر امام نے کسی خوف کی وجہ سے وقوف کو دسویں ذی الحجہ تک مئو خر کر دیا تو یہ معلوم ہوتے ہوئے کہ یہ دسویں ذی الحجہ ہے اس کا وقوف کو موخر کرناجائز نہیں ہے ۴؎ (۷)اور یہ بات کہ ذی الحجہ کے چاندکا حکم شوال کے چاند کی مانند ہے یا رمضان کے چاند کی مانند ،اس بارے میں دو قول ہیں پس تصحیح میں اختلاف ہے اور مذہب یہ ہے کہ شوال کے چاند کی مانند ہے یہ ظاہر الروایت ہے اور یہی اصح ہے یعنی ذی الحجہ کا چاند شوال کے چاند کی مانند ہے پس یہ ابر و غبار کی حالت میں دومردوں یا ایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی سے