عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
المناسک میں اسی کی تصحیح کی گئی ہے جیسا کہ اس میں ہے کہ یہی صحیح ہے پس جو ابن الہمام وغیرہ نے اختیار کیا ہے وہ دلیل کے اعتبار سے اظہر ہے اگر چہ اکثر مشائخ پہلے قول پر ہیں یعنی سنت ہونے کے قائل ہیں ۱؎ پس طواف کا حجر اسود سے شروع کرنا ہمارے اکثر مشائخ کے نزدیک سنت ہے حتیٰ کہ اگر طواف حجرِ اسود کے علاوہ کسی اور جگہ سے شروع کیا تو جائز ہے اور مکروہ ہے ۲؎ جیسا کہ اگر کسی نے رکنِ یمانی سے طواف شروع کیا اور وہیں پر ختم کیا تو اکثرمشائخ اس پر ہیں کہ جائز ہے اور اس پر کوئی جزالازم نہیں ہے لیکن طواف کی ابتدا حجرِ اسود سے شروع کرنا واجب ہونے کے قول کی بنا پر رکن ِ یمانی سے شروع کرنا اور وہیں ختم کرنا مکروہِ تحریمی ہے اور سنتِ ہونے کے قول پر مکروہِ تنزیہی ہے ۳؎ اور حجرِ اسود سے مراد خانہ کعبہ کا وہ رکن (کونہ ) ہے جس میں حجرِ اسود نصب کیا ہو ا ہے اگر نعوذ باﷲ حجرِ اسود کو اس کی جگہ سے ہٹادیا جائے تب بھی طواف کی ابتدا اسی رکن (کونے) سے لازم (یعنی سنت) ہوگی ۴؎ (۹) موالات یعنی طواف کے تمام چکروں کا اور ان چکروںکے اجزا کا پے درپے ادا کرنا اور اسی طرح سعی کے چکروں کا پے درپے کرنا اور طواف کے بعدمتصل ہی سعی کرنا (خواہ وہ سعی حج کی ہو یا عمرہ کی ) لیکن طواف اور سعی میں موالاۃ (متصل ہونا) میں وسعت ہے بخلا ف چکروں میں اور چکروں کے اجزا میں موالات کے ا ور ظاہر ہے کہ مولات سے مراد موالاتِ عرفیہ ہے یہ مراد نہیں کہ بالکل فاصلہ ہی نہ ہو اس لئے اثنائے طواف میں پانی پینے وغیرہ کی اجازت ہے ۵؎ (۱۰)بدن ولباس ومکانِ طواف کا نجاستِ حقیقیہ سے پاک ہونا سنتِ مؤکدہ ہے ۶؎ اور بعض نے کہا کہ نجاستِ حقیقیہ سے طہارت واجب ہے خواہ پہنے ہوئے کپڑے ہوں یا اعضائے