عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیونکہ حج کے بارے میں زیادہ وسعت ہے، معہٰذا قرات فرضِ قطعی اور متفق علیہ ہے اور تلبیہ ظنی اور مختلف فیہ امر ہے ۔ ۵؎ (۶) ہر وہ ذکر جس سے اﷲ تعالیٰ کی تعظیم مقصود ہو تلبیہ کے قائم مقام ہے مثلاً لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ اور سُبْحَانَ اﷲ اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور اَﷲُ اَکْبَرُ وغیرہ اﷲ تعالیٰ کی ثناء اور بزرگی کے کلمات کہنا، اور صحیح یہ ہے کہ خواہ ان کلمات کے ساتھ دعائیہ کلمات بھی ہوں (مثلاً اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وغیرہ کہا ۶؎ ) تب بھی وہ تلبیہ کے قائم مقام ہیں اور اگر اللھم بمعنی یااﷲ، کہا اور کچھ زیادہ نہ کیا تو (اس میں اختلاف ہے اصح یہ ہے کہ ۷؎ ) تلبیہ کے لئے کافی ہے اور نماز کے بارے میں بھی یہی اصح قول ہے ۸؎ اور حاصل یہ ہے کہ حج یا عمرہ یا قران کی نیت کے ساتھ خاص مسنونہ تلبیہ کے الفاظ کہنا شرط نہیں ہے بلکہ ان الفاظ سے تلبیہ کہنا سنت ہے اور شرط صرف یہ ہے کہ نیت کے ساتھ کوئی بھی ذکر جس سے اﷲ تعالیٰ کی تعظیم ہو کہہ لیا جائے ۹؎ پس اگر تلبیہ مسنونہ کو ترک کردیا اور اس کی بجائے اﷲ تعالیٰ کے کسی اور تعظیمی ذکر سے احرام باندھ لیا تو ترکِ سنت کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہوگا۔ اور یہ جو کہا گیا ہے کہ تلبیہ کا ایک مرتبہ کہنا شرط ہے اس سے مراد کسی ایسے ذکر کا کہنا ہے جس سے اﷲ تعالیٰ کی تعظیم ہوتی ہو نہ کہ تلبیہ کے مخصوص الفاظ کا کہنا اور اسی طرح یہ جوکہا گیا ہے کہ تلبیہ کی شرط یہ ہے کہ زبان سے ادا کیا جائے تو اس سے بھی یہی مراد ہے کہ کوئی ایسا ذکر زبان سے کہا جائے جس سے اﷲ تعالیٰ کی تعظیم ہوتی ہو نہ کہ تلبیہ کے مخصوص الفاظ کا کہنا۔ ۱۰؎ (۷) تلبیہ اور اس کے قائم مقام ذکر اﷲ کا عربی، فارسی یا کسی اور زبان ترکی ،ہندی، اردو وغیرہ میں ہونا جائز ہے اور جمہور فقہا کے نزدیک کسی بھی زبان میں کہہ لینا جائز ہونے