عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۵)اگر کسی شخص نے قربانی کے دن (دس ذی الحجہ کو) حج کا احرام باندھا اوراسی روز طواف کے بعد سعی کی پھر اس احرام سے آئندہ سال حج کیا تو اس کی یہ سعی صحیح ہوجائے گی ( یعنی آئندہ سال کے حج کی سعی شمار ہوجائے گی ) کیونکہ وہ حج کے مہینوں میں واقع ہوئی ہے اور احرام کے متعلق پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس کو مقدم کرنا مطلقاً جائز ہے ۳؎ ۔ اب اس پر طواف زیارت کے بعد سعی کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ اس کی وہ سعی معتبر ہوگئی ہے اور قربانی کے دن حج کا احرام باندھنا مکروہ بھی نہیں ہے بلکہ حج کے مہینوں کے علاوہ اور دنوں میں احرام باندھنامکروہ ہے باقی کے دن احرام باندھنابھی اس لئے مکروہ ہونا چاہئے کہ اگرچہ وہ حج کے مہینوں میں احرام باندھنے والا ہوگا لیکن آئندہ سال تک کے طویل عرصہ میں محظوراتِ احرام سے ہر گز محفوظ نہیں رہ سکے گا ۴؎ ۔ (۶) اگر کسی شخص نے قربانی کے دن عمرہ کا احرام باندھا اوراسی دن اس کے افعال ادا کئے اگرچہ قربانی کے دنوں میں عمرہ کرنا مکروہ ہے پھر اس نے عمرہ کے احرام سے باہر آنے کے بعد اسی روز حج کا احرام باندھا اور اس احرام سے آنے والے سال میں حج کیا تو وہ متمتع ہوجائے گا ۵؎ اور اس حج تمتع کے مسنون یاغیر مسنون ہونے کے متعلق ظاہر یہ ہے کہ اہل مکہ کے تمتع پرقیاس کرتے ہوئے اس کا تمتع بھی غیر مسنون ہوگا اور بعض نے کہا کہ وہ ہر گز متمتع نہیں ہوگا کیونکہ اکثر فقہا کے قول پر تمتع کے لئے یہ شرط ہے کہ عمرہ و حج ایک ہی سال میں واقع ہوں اور بہت سے فقہا نے اس کی تصریح کی ہے ۶؎ (اس مسئلہ کی مزید تفصیل شرائط تمتع کے بیان میں ہے، مؤلف)