عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مہینوں کے بعد بلاکراہت جائز ہے بخلاف سعی وغیرہ کے جو کہ حج کے اصلی اعمال ہیں واﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ اعلم ۔ اور افعالِ حج سے مراد احرام کے علاوہ افعالِ حج ہیں پس احرام کا حج کے مہینوں سے پہلے باندھنا کراہت کے ساتھ جائز ہونا اس کے منافی نہیں ہے یہاں تک کہ اگر کسی نے حج کے مہینوں سے پہلے احرام باندھاتو مطلقاً مکروہ تحریمی ہے خواہ وہ اپنے آپ کو محظوراتِ احرام سے محفوظ سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو، کیونکہ یہ رکن کے مشابہ ہے اگر احرام حقیقت میں رکن ہوتا تو حج کے مہینوں سے پہلے صحیح نہ ہوتا پس جبکہ یہ مشابہ بالرکن اورعدم صحت کے قریب ہے اس لئے حج کے مہینوں سے پہلے احرام باندھنا مکروہ ہے ۷؎ ؎ (۳)وقوفِ عرفات کا اپنے وقت میں واقع ہوناشرط ہے پس اگر عرفہ کا دن لوگوں پر مشتبہ ہوجائے اوروہ یہ گمان کرتے ہوئے کہ یہ عرفہ کادن ہے وقوف کرلیں اور پھر ظاہر ہو کہ یہ قربانی کا پہلادن یعنی دسویں ذی الحجہ ہے تو جائز ہے اور اگر یہ ظاہر ہواکہ گیارہویں ذی الحجہ ہے تو جائز نہیں ۸؎ پس انتہا میں تو قیتِ زمانی کا فائدہ یہ ہے کہ حج کا رکنِ معظم یعنی وقوفِ عرفات کے فوت ہونے سے حج فوت ہوجاتا ہے اور اس سے دسویں ذی الحجہ کا حج کے مہینوں سے خارج ہونالازم نہیںآتا کیونکہ شبہ کے دن دسویں ذی الحجہ کو وقوفِ عرفات جائز ہے بخلاف گیارہویں ذی الحجہ کے لیکن عدمِ شبہ کے وقت دسویں ذی الحجہ کو وقوفِ عرفات جائز نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ دسویں ذی الحجہ حج کے مہینوں میں سے نہیں ہے بلکہ وقوفِ عرفات نص سے موقت ہونے کی وجہ سے اس کا منصوص وقت کے علاوہ ہوناجائز نہیں ہے اگرچہ اشہر حج میں ہی ہو ۱؎ (۴) عمرہ کے طواف کے اکثر چکروں کا حج کے مہینوں میں واقع ہونا حج تمتع وقران کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے ۲؎