عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وَالمُنکَرِ وَالبَغیِ یَعِظُمکُم لَعَلَّکُم تَذَکَّرُونَ ( النحل :۹۰) ’’بیشک اللہ تعالی حکم کرتا ہے انصاف اور احسان کرنے کا اور قرابت والوں کو دینے کا اور منع کرتا ہے بے حیائی سے اور برے کاموں اور بغاوت سے اللہ تعالیٰ تم کو اس لئے نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو‘‘ پس تقدیر پر ایمان لانے کا مضمون حد تو اتر کو پہنچ گیا ہے، اور جو شخص یہ یقین رکھے کہ نیکی وبدی تقدیر سے نہیں وہ کافر ہے۔ تقدیر کا مختصر مطلب یہ ہے کہ عالم میں جو کچھ بھلا برا ہوتا ہے اللہ تعالی اس کے ہونے سے پہلے سب کچھ ہمیشہ سے جانتا ہے اور اپنے جاننے کے موافق اس کو پیدا کرتاہے نیز یہ کہ بندوں کے سب افعال اللہ تعالیٰ کے ارادے، مشیت، قضا اور تقدیر سے ظاہر ہوتے ہیں لیکن بندے کو اس کے افعال میں اختیار دیا گیا ہے اگر وہ نیک کام کرے گا اجر پائے گا اور برے کام کی اس کو سزا ملے گی۔ جب بندہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو اللہ تعالی کی طرف سے ایک قسم کی قدرت عنایت ہوتی ہے پس اگر وہ بندہ اس قدرت کو نیک کام میںلگائے تو بھی اس کواختیار ہے اور وہ اختیار کا استعمال اس کے لئے جزا کا موجب ہے اور اگر برے کام میں خرچ کرے تو بھی اس کو یہ اختیار ہے اور اس اختیار کے استعمال پر وہ سزا کا مسحتق ہوتا ہے پس اسی قدرت واختیار پر تکلیفات شرعیہ کادارومدار ہے لہٰذا جس کام کی بندہ استطاعت وقدرت نہیں رکھتااس کو اللہ تعالیٰ نے اُس کے کرنے کاحکم بھی نہیں دیا فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَن یَّشَآئُ وَیَھدِی مَن یَّشَآئُ (الفاطر: ۸) ’’بیشک اللہ تعالی جس کو چاہتاہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتاہے ہدایت دیتا ہے‘‘ اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ ہدایت وگمراہی کا خالق وہی اللہ تعالیٰ ہے اور وہ ہدایت وگمراہی کو پیدا نہ کرتا تو نہ کوئی گمراہ ہوتا نہ ہدایت پاتا۔ پس خیرو شر اور ہدایت وگمراہی کا پیدا کرنا کوئی برائی نہیں بلکہ عین مصلحت ہے تاکہ نیک وبد کا امتحان لے اور حسب ِحال جزا وسزا