عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لئے بھی سنت نہیں ہے کیونکہ تمتع کرنے والا پہلے احرام کے وقت صرف عمرہ کرنے والے کے حکم میں ہے اور دوسرے یعنی حج کے احرام کے وقت اہلِ مکہ کے حکم میں ہے لیکن قارن چونکہ عمرہ و حج دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھتا ہے اس لئے پہلے وہ عمرہ کا طواف وسعی کرتا ہے پھر طوافِ قدوم کرتا ہے اور طوافِ قدوم کے بعد ہی حج کی سعی بھی اسی احرام کے ساتھ کرلیتاہے جبکہ وہ سعی کو مقدم کرنا چاہے یعنی جبکہ وہ حج پر روانگی سے پہلے ادا کرنا چاہے اور اگر مؤخر کرنا چاہے تو حج کی سعی کو منیٰ سے طوافِ زیارت کے لئے آکر طوافِ زیارت کے بعد کرے ۴؎ (جیسا کہ اس کی تفصیل آگے آئے گی) خلاصہ یہ ہے کہ طوافِ قدوم کرنا مفرد آفاقی اور قارن کے لئے سنت ہے اور اس اہلِ مکہ کے لئے بھی سنت ہے جو حج کے مہینوں سے پہلے آفاق کی طرف جائے اور پھر مفرد یا قران کا احرام باندھ کر واپس آئے (مؤلف) (۲) امام کا تین مقامات پر خطبہ پڑھنا ایک ساتویں ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ میں زوال کے بعد، دوسری نویں ذی الحجہ کو عرفات میں مسجدِ نمرہ میں جمع بین صلوٰۃ الظہر و العصر سے پہلے ، تیسرا گیارہویں ذی الحجہ کو منیٰ میں ۵؎ پس ہر خطبہ میں ایک دن کا فاصلہ کرے، مکہ اور منیٰ کے مقام پر ایک ایک خطبہ ہے جس کے درمیان بیٹھنا نہیں ہے اور یہ دونوں خطبے ظہر کے بعد دے ، یومِ عرفہ کے دوخطبے ہیں جن کے درمیان میں بیٹھنا ہے یہ خطبہ ظہر کی نماز سے قبل ہے اور یہ سب امور سنت ہیں ۶؎ ؎(۳) مکہ مکرمہ سے منیٰ کی طرف آٹھویں ذی الحجہ کو فجر کی نماز کے بعد نکلنا تاکہ منیٰ میں پانچ نمازیں پڑھ سکے ۷؎ یعنی طلوعِ آفتاب کے بعد نکلے یہی صحیح ہے ۸؎