عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۹) اگر کسی شخص کو مال حاصل ہوااور اس پر پہلے سے زکوٰۃ و حج فرض ہے تو اس کو حج ادا کرنا چاہئے لیکن اگر وہ مال زکوٰۃ کے مال کی جنس سے ہے تو اس سے زکوٰۃ ادا کرے چنانچہ خزانۃ الاکمل میں ہے کہ اگر کسی شخص پر اس کے مال کی زکوٰۃ ہزار روپیہ اور حج فرض ہے اور اس کے قبضہ میں ہزار روپیہ ہے تو اس کو زکوٰۃ کی ادائیگی میں خرچ کرے لیکن اگر وہ ہزار روپیہ زکوٰۃ کے مال کی جنس سے نہیں ہے تو اگر وہ حج کا زمانہ ہے(یعنی اس شہر والوں کے حج پر روانہ ہونے کا زمانہ ہے ۳؎)تو اس روپیہ سے حج ادا کرے (اس سے زکوٰۃ اداکرنا جائزنہیںہے ۴؎ ) لیکن اگر حج کے لئے روانگی کا زمانہ ہے تو اس سے زکوٰۃ اداکرے اھ ۵؎ (۱۰) اگر کسی شخص پر لوگوں کا قرضہ ہے اوروہ کل قرضہ یا اسکے کچھ حصہ کی ادائیگی پر قادر نہیں ہے تو اس کو حج کے لئے جانا جائز ہے اور اس کا افلاس ثابت ہونے کے بعد قرض خواہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کو حج پر روانہ ہونے سے روکے لیکن اگر وہ مال رکھتا ہے جو کل قرضہ یا کچھ حصہ کی ادائیگی کے لئے کافی ہے تو اس پر اس قدر قرضہ کی ادائیگی واجب ہے جبکہ وہ قرض معجل ہو اور اگر وہ قرض مؤجل ہے تو اس کی ادائیگی مستحب ہے کذاقال الملا علی قاری ۶؎ (۱۱) اگر کسی شخص میں وجوب کی تمام شرطیں پائی جاتی ہیں اور ادا کی تمام شرطیں نہیں پائی جاتیں تو اس پر حج واجب ہے لیکن اس کو خود حج کرنا واجب ہے کیونکہ وہ وجوب ادا کی کل یا بعض شرطوں پر قادر نہیں ہے اس لئے اس کو اپنے مال سے حج ادا کرانے کی رخصت دی گئی ہے پس اس پر واجب ہے کہ اپنی زندگی میں کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر اس سے حج کرائے اور اگر اپنی زندگی میں دوسرے آدمی سے حج نہیں کرایا تو مرتے وقت