عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صورت ہوکہ روزانہ یا بعض دنوں میں ایک منزل سے زیادہ سفر کرے تو پہنچ سکتا ہے اور حج مل سکتا ہے اوراگرایک منزل ہر روز چلے تو حج نہیں ملے گا تو اس پر حج واجب نہیں ہوگا ۸؎ (۶) اور یہ بھی شرط ہے کہ فرض نمازیں اپنے اپنے وقت میں ادا کرتے ہوئے مکہ و عرفات پہنچنے کا وقت ہو (پس اگر کوئی شخص نماز ترک کرکے تو پہنچ سکتا ہے اور اگر فرض نماز اپنے اپنے وقت میں پڑھے تو نہیں پہنچ سکتا تو اس پر حج فرض نہیں ہوگا ۹؎ ) امام کرمانی نے کہا ہے کہ کسی فرض کو اس طرح سے بجالانا کہ دوسرا فرض فوت ہوجائے یہ کوئی حکمت و دانائی نہیں ہے ۱؎ ۔ مزید وضاحت نمبر ۷ میں درج ہے۔ (۷)اگر کوئی شخص ذی الحجہ کی نو تاریخ کومکہ مکرمہ نہ پہنچ سکا بلکہ نویں اور دسویں ذی الحجہ کی درمیانی شب میں پہنچا اور اتنا وقت تنگ ہے کہ اگر عشاکی نماز پڑھے گا تو وقوفِ عرفات کا وقت نکل جائے گا اور وہ عرفات تک نہیں پہنچ سکے گا اور اگر عشاکی نمازنہ پڑھے تو وقوفِ عرفات پاسکتا ہے تو بعض نے کہا کہ وہ عشا کی نماز پڑھے اگرچہ وقوفِ عرفات فوت ہوجائے کیونکہ نماز ایسا فرض عین ہے کہ جس کا وقت تنگ مقرر ہوا ہے اور اس سے تاخیر کرنا گناہ ہے اور یہی ظاہر ہے اور یہ نقلی دلائل اور عقلی اعتبارات سے جلدی سمجھ میں آجاتا ہے ۔ امام رافعی نے اسی کو اختیار کیا ہے اور صاحب سراج الوہاج نے ذکر کیا کہ وہ نماز کو چھوڑدے اور عرفات کی طرف چلاجائے اور گویا کہ صاحب سراج الوہاج نے اس وقت میں مبتلی بہٖ سے حرج کو رفع کرنے کا لحاظ کیا ہے کیونکہ عشاء کی نمازکا قضا کرنا ساری عمر میں ایک دفعہ واقع ہونے والے فریضہ کے مقابلہ میں آسان کام ہے اور اس نماز کی قضا کاتدارک جلدی ہوسکتا ہے بخلاف ان امور کے جو حج فوت ہوجانے پر مرتب ہوتے ہیں یعنی