عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قول کی بِنا پر اس کی وصیت صحیح ہوگی ۴؎ اور یہ دوسرا قول یعنی وقت کا وجوبِ ادا کی شرط ہونے کا قول بہت ضعیف ہے جیسا کہ ملا علی قادریؒ وغیرہ نے کہا ہے ۵؎ اور صاحبِ مجمع نے وصیت کے درست ہونے کا قول امام ابو حنیفہؒ اورصاحبین ؒ کے طرف منسوب کیا ہے اور اس کا خلاف یعنی وصیت کا صحیح نہ ہونا امام زفر کی طرف منسوب کیا ہے اور وصیت صحیح ہونے کی تعلیل یہ بیان کی ہے کہ وہ وصیت کے وقت وجوبِ حج کے اہل تھے پس ان کی وصیت صحیح ہے تاکہ ان کی طرف سے حج کے وقت میں حج کیا جائے کیونکہ وہ خود حج ادا کرنے سے عاجز ہیں، فتاویٰ قاضی خان کی عبارت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے یہ مشہور ومرجح قول یعنی وقت کے وجوبِ حج کی شرط ہونے کے منافی نہیں ہے ۶؎ (لہٰذا ہمارے تینوں اماموں کا صحیح مذہب یہ ہے کہ وقت کے وجوبِ ادا کی شرط ہونے کے باوجود اگروہ وصیت کرے گا تو اس کی وصیت صحیح ہے، مؤلف) (۴)اگر کوئی آفاقی فقیر حج کے مہینوں سے پہلے مکہ مکرمہ آیا یا مکہ مکرمہ میں رہنے ولا نابالغ لڑکا بالغ ہوا یا مکہ میں رہنے والا غلام آزاد ہوا یا مکہ کا کافر مسلمان ہوا تو کیا اس پر فی الحال حج واجب ہے یا جب تک وہ مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے حج کے مہینے نہ پائے اس پر حج واجب نہیں ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وقت کے وجوب حج کی شرط ہونے کے قول کی بنا پر اس پر فی الحال حج واجب نہیں ہوگا اور وقت کے وجوبِ ادا کی شرط ہونے کی بِنا پر اس پر فی الحال (اسی وقت) حج واجب ہوجائے گا ۷؎ (اور اس قول کی بنا پر اس کی ادائیگی حج کے مہینے شروع ہونے پر واجب ہوگی۔مؤلف) (۵)صاحبِ لباب نے اپنی کتاب منسکِ کبیر میں ذکر کیا ہے کہ وقت کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ متوسط اور عام عادت کے مطابق رفتار سے حج کے وقت مکہ پہنچ سکے پس اگر ایسی