عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرلیا تو اس کا حج پورا ہوگیا پس لفظِ مَنْ عموم کے صیغوں میں سے ہے پس صبی (نابالغ) کو بھی شام ہے ۔ردالممتاز میں کہا ہے کہ مصنف درمختار نے الدور کی متابعت میں جو قبل وقوفہ لکھا ہے اس سے مراد حقیقتِ وقوف ہے نہ کہ وقتِ وقوف، پس اس سے بھی عجیمی کے کلام کی تائید ہوتی ہے اھ۔ دوسرا احتمال یعنی ’’وقوف کا وقت فوت ہونے سے قبل ‘‘ ملاعلی قاری ؒ نے وقایہ اور لباب پر اپنی شرحوں میں اسی کو اختیار کیا ہے اور نخبہ میں اس کا قول اسی کی تائید کرتا ہے وہ قول یہ ہے ’’ اگر اس نے احرام کی تجدید کی اس طرح پر کہ اس نے وقوفِ عرفہ سے قبل حج فرض کی نیت کی اور پھر وقوف کیا اور طواف کیا تو اس کا فرض حج بلا خلاف صحیح ہوگیا اور اگر وقوفِ عرفہ کرنے اور وقتِ عرفہ گزرجانے کے بعد بالغ ہوا تو وہ فرض حج کی جگہ کافی نہیں ہوگا‘‘ اور اس کا اسی طرح کا قول مبتغیٰ میں بھی ہے وہ یہ ہے کہ اگر نا بالغ یا مجنوں یا کافر نے احرام باندھا پھر نابالغ ہوا یا مجنون کو افاقہ ہوا یا کافر مسلمان ہوااور حج کا وقت باقی ہے پس اگر یہ لوگ احرام کی تجدید کرلیں تو ان کا فرض حج ادا ہوجائے گا اھ۔اور اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ قبل الوقوف سے مراد وقوف کا وقت فوت ہونے سے قبل ہے پس غایۃ الامر اس میں یہ ہے کہ اس سے پہلے جو وقوف اس نے کیا ہے وہ رکن کے حق میں بے کار و رائیگاں چلا جائے گا۔ اوریہ حکم نابالغ ومجنون کے بارے میں ہے لیکن کافر کا حکم یہ ہے کہ اس کا پہلا احرام منعقد نہیں ہوا نہ فرض کی جگہ اور نہ نفل کی جگہ اس لئے اس کا وقوف معتبر نہیں ہوگا اور حاصل یہ ہے کہ اس مسئلہ میں فقہا کا اختلا ف ہے بعض نے وقوفِ عرفہ کی ابتدا کے بعد نئے سرے سے احرام باندھنے کی صحت کا فتویٰ دیا ہے اور بعض نے اس صورت میں تجدید احرام کی عدمِ صحت کا فتویٰ دیا ہے (اور یہی صحیح