عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وہ صحیح نہیں ہے ( بلکہ اگر اب اس میں شرائطِ و جوب پائے جائیں تو دوبارہ حج کرنا فرض ہو گا ) اور اگر کا فراصلی یا مرتد احرام باندھنے کے بعد و قوف ِ عرفہ سے پہلے مسلمان ہوگیا تو اگر اسنے مسلمان ہونے کے بعد نئے سرے سے حج کا احرام باندھ لیا تو اس کا حج فرض صحیح ہوجائے گا کیونکہ اس کا پہلا احرام عدم اہلیت کی وجہ سے منعقد ہی نہیں ہوا ۳ ؎ اور وقوفِ عرفات سے پہلے کا مطلب یہ ہے کہ وقوف کا وقت فوت ہونے سے پہلے ہو اگرچہ وقوف کے بعد ہو اس لئے کہ وہ احرام اور وقوف اور شہود مناسک کے ساتھ ہی مسلمان ہوتا ہے جیسا کہ بحرالرائق میں ہے ۴ ؎ اور اگر مسلمان ہونے کے بعد نیا احرام نہیں باندھا توا س کا حج مطقاً صحیح نہیں ہوگا نہ فرض کی جگہ ہوگا اور نہ نفلی کیونکہ کافر کا احرام ہرگز منعقد نہیں ہوتانہ فرض کی جگہ اورنہ نفلی کی، کیونکہ وہ احرام باندھنے کا اہل نہیں ہے اور اگر کسی مسلمان نے احرام باندھا پھر وہ احرام کے دوران میں ہی (العیاذ باﷲ) مرتد ہوگیا تو اس کا احرام مطلقاً باطل ہوگیا خواہ وہ حج ِ فرض کا احرام ہو یا نفلی حج کا ہو ۵ ؎ فقہا کے قول ’’کافر کے حج کی ادائیگی صحیح نہیں ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کافر نے تنہا حج کیا یا نامکمل حج کیا تواس کی ادائیگی صحیح نہیں ہوگی بخلاف اس کے اگر اس نے مسلمانوں کے ساتھ پورا حج کیا تو کیونکہ وہ اس سے مسلمان ہوجائے گا اسلئے اس کے حج کی ادائیگی صحیح ہوجائیگی اور وہ حج نفلی ہوگا اور بعض نے کہا کہ فرض حج ہوگا اور بعض کے نزدیک اس کے مسلما ن ہونے کا حکم نہیں ہوگا اس لئے اس کے حج کی ادائیگی بھی صحیح نہیں ہوگی اور اس حکم کا بیان ظاہر کے اعتبار سے ہے لیکن اﷲ تعالیٰ اور اس کافر کے درمیان کے باطنی معاملہ کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ احرام باندھنے سے پہلے مسلمان تھا تو فرض ساقط ہوجائے گا ورنہ نہیں۔ اس کی پوری تفصیل منسک الکبیر میں ہے ۶ ؎