عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فطر ت کے خصائل اور امورِ حج، چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ’’اپنے مشاعر پر قائم رہو کیونکہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی وراثت سے تم کو یہ ورثہ ملا ہے۔ (۴) حج میں ایسے امور مقرر ہیں جن میں ہر خاص و عام کے لئے سہولت ہے جیسے منیٰ میں اُترنا اور مزدلفہ میں رات کو قیام کرنا، کیونکہ ایسے امور مقرر نہ کئے جاتے تو حاجیوں کو سخت دشواری پیش آتی اور اگر اس کی تاکید اور پابندی نہ کی جاتی تو اس کثرت اور انتشار کی وجہ سے لوگ ایک بات پر متفق نہ ہوتے۔ (۵) حج میں ایسے اعمال ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا کرنے والا موحد ہے اور حق کا تابع ہے اور ملّتِ حنیفی کا پابند ہے اور اس ملّت کے پیشواؤں پر جو کچھ اﷲ تعالیٰ نے انعامات فرمائے ہیں جیسا کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا وہ ان پر اﷲ تعالیٰ کا شکر گزار ہے ۲ ؎ پس حج میں توحید اور اطاعت خالق وحدہ‘ لاشریک لہ‘ کا مظاہر ہ ہے کیونکہ افعالِ حج سے مقصود اطاعت رب البیت ہے نہ کہ درو دیوار اور میدا نِ عرفات ، جب ہم کو وہاں کی حاضری کا حکم کیا گیا تو ہم محض اظہارِ عبودیت اور کامل انقیا د ظاہر کرنے کے لئے اپنے مالک وخالق کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوگئے ۱ ؎ ؎ (۶) اہلِ جاہلیت حج کیا کرتے تھے اور حج ان کے دین کے اصول میں سے تھا لیکن انہوں نے اس کے اندر ایسے اعمال کو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منقول نہیں تھے اور انہوں نے ازخود وضع کئے تھے شامل کرلیا تھا اور ان اعمال میں شرک پایا جاتا تھا جیسے اساف اور نائلہ کی تعظیم اور مناتِ طاغیہ کے لئے احرام باندھنا اور جیسے تلبیہ میں اُن کا یہ کہنا لا شریک لک الاشریکا ھولک اور یہ اعمال ایسے تھے جن سے نہایت تاکید کے ساتھ روکنا ضروری تھا اور بعض اعمال ایسے تھے جن کو وہ بطورِ فخر و خودپسندی اپنی طرف سے