عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں سے سے نیچے کی نجاست کا رنگ و بوظاہر نہ ہوتا ہو تو اس پر نماز جائز ہوگی۔ مرغی یا کوئی اور پرندہ پیٹ چاک کرکے اس کی آلائش نکالنے سے پہلے پانی میں جوش دی جائے تو وہ کسی طرح پاک نہیں ہوسکتی (یہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہے) اسی پر فتویٰ ہے احتیاطاً الآئش نکال کر اور خون دھو کر جوش دیا جائے۔ بعض نے تین دفعہ پاک پانی میں پکانے اور اس پانی کو ہر بار بدلنے سے پاک ہونے کا حکم دیا ہے۔ (ے امام ابو یوسفؒ کا قول ہے) دکھتی آنکھ سے جو پانی نکلے نیز ناف یا پستان سے درد کے ساتھ جو پانی نکلے وہ نجاستِ غلیظہ ہے۔ بلغمی رطوبت ناک یا منھ سے نکلے نجس نہیں اگر چہ پیٹ سے چڑھے اور خواہ بیماری کے سبب ہو، جو خون زحم سے بہانہ ہو پاک ہے۔ روئی دار کپڑا (مرزئی وغیرہ) ادھیڑا گیا اور اس کے اندر سوکھا ہوا چوہا ملا تو اگر اس میں سوراخ ہے توتین دن رات کی نمازیں لوٹائیں۔ اگر سوراخ نہ ہو تو جتنی نمازیں اس سے پڑجھی ہیں سب کا اعادہ کرے، آدمی کی کھال یا گوشت اگر ناخن کے برابر تھوڑے پانی میں گرے تو وہ پانی ناپاک ہوگیا اور اگر اس سے کم ہو تو ناپاک نہیں ہوگا۔ خود ناخن یا بال گر جاوے تو ناپاک نہیں کیوں کہ ان میں خون سرایت نہیں کرتا۔ عورت کے پیشاب کے مقام سے جو رطوبت نکلے پاک ہے کپڑے یا بدن میں لگے تو دھونا کچھ ضروری نہیں ہاں بہتر ہے، یہ حکم امام صاحبؒ کے نزدیک ہے اور صاحبین کے نزدیک نجس ہے، یہ حکم فرجِ داخل کا ہے اور فرجِ خارج کی رطوبت بالاتفاق پاک ہے لیکن وضو کے لئے اس کا دھولینا سنت ہے نجاستوں سے جو کیڑے پیدا ہوتے ہیں وہ نجس ہیں۔ ۱۔ یعنی اگر دونوں مختلط ہوں تو مطلقاً غلیظہ کو ترجیح ہوگی ورنہ اگر مساوی یا غلیظہ زیادہ ہو تو غلیظہ اور اگر خفیفہ زیادہ ہو تو خفیہ کا حکم ہوگا۔ (از شامی مؤلف)