عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوگااور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک احتیاطاً غسل واجب ہوگا اس لئے کہ ولادت تھوڑے خون سے خالی نہیں ہوتی، اکثر مشائخ کا یہی مذہب ہے اور یہی معتمد ہے، اگر اکثر (نصف سے زیادہ) بچہ باہر نکل آیا تو نفاس ہوگا ورنہ نہیں اور یہی حکم اس وقت بھی ہے جبکہ بچہ رحم کے اندر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے اور اکثر باہر نکل آئے، اگر بچہ کی تھوری خلقت ظاہر ہوگئی جیسے ہاتھ یا پائوں یا انگلی یا ناخن یا بال (اگر چہ ابھی پورا نہیں بنا کہ اسقاط ہوگیا (گرگیا) خواہ دوائی وغیرہ سے گرا دے یا خود ہی گر جائے) تو وہ بچہ ہے اس کے نکلنے کے عورت کو نفاس ہوگا اور اگر اس کی خلقت میں سے کچھ ظاہر نہیں ہوا (بلکہ صرف خون کا لوتھڑا نکلا) تو نفاس نہ ہوگا اور جو کچھ خون وغیرہ اس کے ساتھ نکلا ہے اگر ہوسکے گا (یعنی مدت وغیرہ کے اعتبار سے جبکہ تین دن سے کم نہ ہو اور اس کے پہلے پورا طہر یعنی پندرہ دن گذر جائیں) تو حیض ہوگا ورنہ استحاضہ ہوگا (عضو بننے کے لئے مدت کے لحاظ سے ایک سو بیس دن (چار ماہ) کا گزرنا ہے یعنی مدت کے لحاظ سے اس سے پہلے ظہور اعضا نہیں ہوتا) اگر بچہ نکلنے سے پہلے بھی خون آیا اور بعد میں بھی آیا اور بچہ کی خلقت ظاہر ہوگئی تھی تو جو خون اس بچہ کے نکلنے سے قبل آیا وہ حیض نہ ہوگا (بلکہ استحاضہ ہوگا) اور جو بعد میں آیا وہ نفاس ہوگا اور اگر اس کی خلقت ظاہر نہ ہوئی تھی تو جو خون قبل اسقاط کے آیا اگر وہ حیض ہوسکے گا (یعنی دمتِ حیض کو پہنچے جائے گا) تو حیض ہوگا، اگر بچہ ناف کی طرف سے پیدا ہوا اس طرح کہ اس (حاملہ) کے پیٹ میں زخم تھا وہ پھٹ گیا اور اس طرف سے بچہ نکل آیا تو اگر وہ خون رحم سے آیا ہے تو نفاس ہے اور رحم سے نہیں آیا تو اس کا وہ حکم وہگا جو زخم سے خون جاری ہونے کی صورت میں ہوتا ہے اور نفاس نہ سمجھا جائے گا (مگر بچہ کے حق میں بچہ ہونے کے احکام ثابت ہوں گے حتی کہ طلاق جو بچہ پیدا ہونے پر معلق ہوگی