عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۶۔ طہر کی کامل مدت اس سے پہلے ہو چکی ہو، اگر دوخونوں کے درمیان طہر آجائے اور سب خونِ حیض کی مدت کے اندر ہوں تو حیض ہوگا اس لئے کہ اس کے اول و آخر کا اعتبار ہے اور درمیان کی خشکی کا اعتبار نہیں، اور اگر ایک خون حیض کی مدت سے باہر ہو جائے مثلاً ایک روز خون آیا اور نو دن تک اطہر رہا اور پھر ایک روز خون آیا تو حیض نہ ہوگا اس لئے کہ آخر کا خون مدتِ حیض کے اندر نہیں اور اس روایت کے بموجب حیض کی ابتدا اور اتنہا طہر سے نہیں ہوئی اور یہ روایت امام محمدؒ کی ہے امام ابو حنیفہؒ سے، اور امام ابو یوسفؒ نے امام ابو حنیفہؒ سے روایت کی ہے کہ اگر دو خنوں کے درمیان میں طہر آجائے تو اگر وہ پندرہ روز سے کم ہے تو ان کو جدا نہیں کرے گا اور اکثر متاخیرین نے اسی پر فتویٰ دیا ہے اس لئے کہ اس میں فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دین یوالے دونوں پر آسانی ہے اور اس پر فتویٰ دیا جاتا ہے پس اگر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو وہ طہر اور خون سب حیض ہوں گے برابر ہے کہ اس عورت کو پہلی بار ہی حیض آیا ہو یا عادت مقرر ہو اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر عورت کو اول بار ہی حیض آیا ہے تو دس دن حیض کے سمجھے جائیں گے اور اگر اس کی عادت مقرر ہو تو حیض کی جو مدت معلوم ہے وہ حیض سمجھی جائے گیاور طہر کی جو مدت معلوم ہے وہ طہر سمجھی جائے گیاور ابتدا حیض کی طہر سے جائز ہے اگر اس سے پہلے خون ہو اور اس کا ختم ہونا بھی طہر پر جائز ہے اگر اس کے بعد خون بند ہو، اگر پندرہ روز یا اس سے زیادہ کا طہر ہو تو ان دونوں خونوں کو جدا کرنے والا سمجھا جائے گا، پس ان دونوں میں سے ہر ایک کو یا صرف ایک کو حیض سمجھیں گے جس طرح ممکن ہوگا طہر (دو حیض کے درمیان پاک رہنے) کی کم سے کم مدت پندرہ روز اور ان کی راتیں ہیں اور اکثر کی کچھ انتہا نہیں جتنے مہینے تک خون نہ آئے پاک ہے اگر چہ تمام عمر نہ آئے (تمام عمر خون نہ آنے