عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
توٹھہر یہاں تک کہ میں پانی بھرلوں پھر تجھ کو دوں گا تو مستحب یہ ہے کہ اگر وقت فراخ ہو تو انتظار کرے اور اگر تیمم کرلیااورانتظار نہ کیا تو جائز ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس شخص کا انتظار واجب ہے کہ فارغ ہو کردوں گا اور اگرچہ وقت نماز کا چلا جائے۔ اگرنہر کے اور اوپر پانی جم گیا ہے اور ا س کے نیچے پانی ہے اور اس کے کاٹنے کا آلہ بھی موجود ہے یا فقط برف یا بستہ پانی ہے اور پگھلانے کا آلہ موجود ہے توتیمم نہ کرے (بلکہ پانی نکال کر وضو کرے ) یہ یقول ظاہر ہے اگرچہ بعض کے نزدیک تیمم کرلے تو جائز ہے، کوئی مسلمان شخص دارالحرب میں قید ہو گیا۔ اگر کفار اس کو وضو اور نماز سے منع کریں، یا کسی بھی قید خانہ میں ہو اور قید خانے والے اس کو وضواور نماز سے منع کریں تویہ تیمم کرلے اور اشاروں سے نماز پڑھ لے پھر جب وہاں سے آزاد (رہا )ہوجائے تو اس کا اعادہ کرے اور یہی حکم اس شخص کا ہے جس سے کوئی یوں کہہ دے (مثلاً مالک غلام سے کہے ) کہ اگر تووضو کرے گا تومیں تجھ کو قید کردوں گا یا قتل کردوںگا تو وہ بھی تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور پھر اس کا اعادہ قیدی کی طرح کرے اس لئے کہ ان صورتوں میں عجز بندوں کے فعل سے واقع ہو اوربندوں کے فعل سے اللہ تعالیٰ کا حق ساقط نہیں ہوتا پس عذر دور ہونے پر اعادہ کرے، اسی طرح فاسق مراد اور قرض خواہ وغیرہ کے خوف دلانے سے تیمم کرکے نماز پڑھی تو خوف رفع ہونے پر نماز کااعادہ کرے اور اگریہ خوف خود بخود پیدا ہو کر تیمم سے نماز پڑھی تو اعادہ نہ کرے اس لئے کہ اب عجز وبندہ کی طرف سے نہیں پایاگیا۔ اور اگر سفر میں قید ہو تو تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور پھر اس کااعادہ نہ کرے اس لئے کہ عجز حقیقی کے ساتھ عذر سفر بھی مل گیا اور اکثر سفر میں پانی کا نہ ملنا ہوتا ہے پس ہر طرح سے عدم متحقق ہوا۔ اگر مریض وضو اور تیمم پر قادر نہ ہو اور اس کے پاس وضو کرانے والا اور تیمم