عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے بیان میں گذر چکی ہے مولف) اور اسی طرح چھوٹے لڑکے لڑکیاں اور غلام اور لونڈیاں پانی نکالنے کے لئے میلے کچیلے ڈول اور گھڑے کنوئیں میں ڈالتے ہیں اور دیہاتی لوگ (جاہل وکافر) میلے کچیلے ہاتھوں سے ڈول اور رسی کو ہاتھ لگاتے ہیں، جب تک ان کے ہاتھوں اور ڈول و رسی وغیرہ پر نجاست کاہونا یقین طور پر معلوم نہ ہو وہ ڈول اور رسی وغیرہ پاک ہے اور اس کنوئیں کے پانی سے وضو اور غسل کرنے اور کھانے پینے وغیر کے لئے استعمال میں لانے کا مضائقہ نہیں ہے اور چھوٹے بچوں اور دیہاتیوں وغیرہ کوخاص طورپر ذکرکیا ہے اس لئے کہ وہ احکام کو نہیں جانتے ورنہ جو احکام جاننے کے باوجود ایساکرے توپانی کے پاک ہونے کا حکم بدرجہ اولیٰ ہے۔ (فتح وبحروم وط ملتقطاً) ۳۔ اگر پانی کو نجس گمان کیا اور اس سے وضو کرلیا پھرمعلوم ہواکہ وہ پاک تھا تواس کا وضو جائز ہے۔ (فتح وبحر وع) ۴۔ اگر جنگل میں تھوڑ ا پانی پایاتو اس میں سے پانی لے کروضو کرنا جائزہے اور اگر اس کاہاتھ نجس ہو اور اس کے پاس کوئی ایسی چیز بھی نہیں ہے جس کے ذریعے اس میں سے پانی نکالے تواپناپاک رومال وغیرہ پانی میں ڈال کر ترکرے اور اس رومال سے پانی ہاتھ پرگرائے تو ہاتھ پاک ہوجائے گا اور اگر اپنی پی کے کنارے پر کتے کے داخل ہونے کی علامت پائی گئی پس اگر وہ پانی سے اس قدرقریب ہو جس سے معلوم ہو کہ کتا یہاں سے پا نی سکتا ہے تواس سے وضو نہ کرے اور اگر ایسا نہ ہو تواس سے وضو کرناجائز ہے (ع) اور المبتغیٰ میں ہے کہ قلیل پانی کے نزدیک کسی جنگلی جانوروں کے قدموں کے نشان پائے جانے کی صورت میں اس پانی سے وضو نہ کرے (بحر) پس اگر کوئی درندہ جانورقلیل پانی (دہ دردہ) سے کم کے تالاب یا گڑھے وغیرہ پرہو کر گزرا اور اس کاگمان غالب یہ ہے کہ