عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۲۔ ہمارے ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مستعمل پانی پاک کرنے والا نہیں ہے اور اس سے وضو جائز نہیں ہے اس کے پاک ہونے میں اختلاف ہے، امام محمدرحمہ اللہ کاقول یہ ہے کہ وہ پاک ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت یہی ہے اور اسی پر فتویٰ ہے (ع) مشائخ بلخ کی تحقیق یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ وامام ابویوسفؒ کے نزدیک مستعمل پانی نجس ہے اور امام محمد ؒ کے نزدیک پاک ہے لیکن پاک کرنے والانہیں ہے اور مشائخ عراق کی تحقیق یہ ہے کہ ان تینوں اماموں میں کوئی اختلاف نہیں ہے یعنی ان تینوں اماموں کے نزدیک پاک ہے او رپاک کرنے والا نہیں ہے او رہمارے مشائخ ماورالنہر میں سے محققین نے اسی کو اختیارکیاہے۔ (بدائع وبحر) ۳۔ جس پانی سے چھوٹایا بڑ احدث دور کیا جائے (یعنی اس سے وضو یاغسل کیاجائے) یا وہ قربت یعنی ثواب کی نیت سے استعمال کیاجائے تو صحیح یہ ہے کہ جس وقت وہ پانی عضو سے جدا ہوگامستعمل ہوجائے گا حتیٰ کہ اگرکسی بے وضو شخص نے اپنے دونوں بازو دھوئے اور کسی دوسرے آدمی نے ا س کے بازوئوں کے نیچے اپنا ہاتھ ٹھہر اکر اس کے مستعمل پانی سے ہاتھ دھوئے یاوضوکیا تویہ جائز نہیں ہے۔ (ع) ۴۔ اگر بے وضو شخص نے ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے یا کسی کو سکھانے کے لئے وضو کیا توشیخین ؒ کے نزدیک وہ پانی مستعمل ہوجائے گا اور امام محمد ؒ کے نزدیک مستعمل نہیں ہوگا۔ (بحروع) کیونکہ پانی کاا ستعمال قربت (ثواب) کے لئے نہیں کیا گیا۔ (بحر) ۵۔ اگر بے وضو شخص نے قربت (ثواب) کی نیت سے وضوکیا تو بالاجماع وہ پانی مستعمل ہوجائے گا۔ (بحر)