عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(انواع) اور ایک قول جو امام محمد سے مروی ہے یہ ہے کہ چشمہ دار کنوئیں سے دو سوسے تین ڈول تک نکال دیئے جائیں، کنز اور ملتقیٰ میں اس پر اعتماد کیا گیاہے اور اس پر فتویٰ ہے اور یہ قول بھی مختار ہے اور اس میں زیادہ آسانی ہے پس تصحیح وفتویٰ میںاختلاف ہے اور حلیہ وبحرالرائق میں اس قول کوضعیف قراردیاہے اور فقہا نے کہاہے کہ امام محمدؒ نے جب بغداد کے کنوؤں کو دیکھا کہ (چشمہ دار ہونے کے باوجود) ان میں زیادہ سے زیادہ اس قدرپانی ہے اس سے زیادہ نہیں ہے تب یہ فتویٰ دیا، یہ مبسوط میں مذکور ہے اور امام ابوحنیفہ ؒ سے بھی روایتِ اصول کے علا وہ ایک روایت میں ہے کہ چشمہ دار کنوئیں سے سو ڈول نکال دئیے جائیں اور یہ اس بناء پر ہے کہ کوفہ کے کنوؤں میں پانی کی مقدار کم تھی یعنی اس مقدار سے زیادہ نہیں تھی جیسا کہ کفایہ میں مذکور ہے (ش وبحر وکبیری وغیرہا ملتقطاً) پس امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ سے منقول یہ دونوں قول بھی اس طرف راجع ہیں کہ ایسے آدمی سے اس کنوئیں کے پانی کا اندازہ کرایا جائے جس کو اس علاقہ کے کنوؤں کے پانی کا تجربہ ہو نہ یہ کہ ہر جگہ کے کنوؤں کے لئے یہ قول لازمی قرار دئیے جائیں (ش) پس اس بناء پر دو سو ڈول نکالنے پر مطلقاً فتویٰ نہیں دینا چایئے بلکہ اس شہر کے اکثر کنوؤں کے پانی کی مقدار کو مد نظر رکھا جائے اور یہی لوگوں کیلئے زیادہ آسان ہے اور ہر کنوئیںکیلئے پانی کی مقدار کا علیحدہ اعتبار کرنا ہی احوط ہے (کبیری) (۶) اگر کوئی کنواں ایسا ہے کہ اس پانی ٹوٹ تو جائے گا مگر ایسا کرنے سے اس کنوئیں کی دیوار کے پھٹ جانے وغیرہ نقصان کا گمان غالب ہے تو اس صورت میں ا س کا پانی توڑنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جتنا پانی اس وقت اس میں موجود ہے بطریق مذکور انداز ہ کرکے اتنا ہی پانی ایک ساتھ یا متفرق طورپر نکال دیا جائے تو وہ کنواں پاک ہوجائے گا۔ (بہار شریعت) (۷) ناپاک کنوئیں