عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پس اگر کنوئیں میں بڑی چھپکلی (جس میں بہنے والا خون ہوتا ہے) گرکر مر جائے تو ظاہر الروایت میں بیس ڈول نکالے جائیں گے اور ممولہ چوہے کے حکم میں ہے (ع) اگرکنوئیں میں بڑی چچڑی گر کر مر گئی (جس میں بہنے والا خون ہو تا ہے) تو ایک روایت میں بیس یا تیس ڈول نکالے جائیں گے (ع) (۳) اگر کنوئیں میں مرغی یا بلی یا کبوتر یا بلحاظ جسم ان کی مانند کوئی اور جانور گر کر مر گیا اور وہ پھولا یا پھٹانہ ہو تو اس کنوئیں سے چالیس یا پچاس ڈول نکالے جائیں، یہ جامع صغیر مذکورہے اور یہی اظہر ہے اور کتاب الاصل کی روایت یہ ہے کہ ساٹھ تک ڈول نکالے جائیں، شرح المجمع میں ہے کہ یہ احوط ہے (ع وہدایہ وم وط وغیرہ ہا ملتقطاً) یعنی چالیس ڈول نکالنا واجب ہے اور پچاس یاساٹھ ڈول نکالنا مستحب ہے (دروہدایہ) اور ورشان ایک جانور کا نام ہے وہ بلی کے حکم میں ہے اس کے کنوئیں میں گر کر مر جانے سے چالیس یا پچاس ڈول نکالے جائیں گے۔ (ع) (۴) جو جانور جُثّہ میں چوہے، مرغی یا بلی کے درمیان کے ہیں وہ چوہے کے حکم میں ہیں اور جو جانور مرغی اور بکری یابلی اور کتے کے درمیان کے ہیں وہ مرغی اور بلی کے حکم میں ہیں اور یہ ظاہر الروایت ہے اور اسی طرح ہمیشہ چھوٹے اور بڑے کادرمیانی جانور چھوٹے جانور کے حکم میں ہوتا ہے (ع وبحر وم ودروش ملتقطا) اور امام محمد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ تین چوہے سے پانچ چوہے تک ایک بلی کے حکم میں ہیں اور چھ چوہے ایک بکری اور کتے کے حکم میںہیں اور یہ ظاہر الروایت ہے جیسا کہ مبسوط کی عبارت سے ظاہر ہے اور اسی قول کو ترجیح ہے او رمواہب میں امام محمدؒ کے قول پر اعتماد کیا گیا ہے اور دوبلیاں بالاجماع ایک بکری کے حکم میںہیں پس دوبلیوں کے کنوئیں میں مرجانے سے اس کا سارا پانی نکالنا واجب ہے او ردوچوہے ایک چوہے کے حکم میں ہے اگرچہ وہ دونوں حُثّہ میں مرغی کی مانندہوں لیکن اما م محمدؒ کی ایک