عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تک وہ کثیر یعنی بہت زیادہ مقدار میں نہ ہوں اس وقت تک کنواں نجس نہیں ہوتا کثیر کی حد میں فقہا کا اختلاف ہے اور اس کے بارے میں کئی اقوال ہیں جن میں سے دواقوال کی تصحیح کی گئی ہے ان دو اقوال میں بھی راحج قول یہ ہے کہ کثیر وہ ہیں جن کودیکھنے والاکثیر سمجھے اور قلیل وہ ہیں جن کو دیکھنے والا قلیل سمجھے، یہ امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے کیونکہ امام ابو حنیفہؒ کی عادت ہے کہ ایسی چیزوں میں جن کی کوئی تعداد یا مقدار معین کرنے کی ضرورت ہو اور ا س میں کوئی نص وارد نہ ہوئی ہو تو اس میں اپنی رائے سے کچھ مقرر نہیں فرماتے تھے بلکہ مبتلیٰ بہ کی رائے پر چھوڑ دیتے تھے۔ بدائع و کافی اور بہت سی کتابوں میں اس کو صحیح کہا ہے اور معراج الدرایہ میں ہے کہ یہی قول مختار ہے، ہدایہ میں ہے کہ اسی پراعتماد ہے، فیض میں ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر کوئی ڈول مینگنی سے خالی نہ آتا ہوتو کثیر ہیں ورنہ قلیل ہیں اور یہی صحیح ہے نہایہ میں اسی کو صحیح کہاہے اور اس کومبسوط کی طرف منسوب کیاہے اور صحیح یہ ہے کہ سالم اور ٹوٹی ہوئی اور تر اور خشک میں کچھ فرق نہیں ہے اور حکم لید، گوبر اور مینگنی سب کے لئے یکساں ہے اور اس بارے میں جنگل اور شہر کے کنوؤں میں یعنی چار دیواری اور بغیر چار دیواری والے کنوئیں میں کچھ فرق نہیں ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ شہر میں بھی اس کی ضرورت واقع ہوتی ہے جیساکہ حماموں اور مسافر خانوں میں ضرورت پڑتی ہے۔ (ہدایہ و ع و بحر ودروش وغیرہ ملتقطاً) ا (۲) اگرکنوئیں میں حبُثہ میں بکری کے برابر کوئی جانور مرجائے مثلاً بکری یا کتا یا آدمی مرجائے تو اس کا تمام پانی نکالا جائے گا خواہ گرتے وقت اس کا جسم پاک ہو یا نا پاک ہو اور خواہ وہ جانور پھولایا پھٹا نہ ہو اور خواہ باہر سے مرکر گرے تب بھی یہی حکم ہے۔ (بحر و ہدایہ وع ملتقطاوتصرفاً) (۷) دو یازیادہ بلیاں یاایک بلی اور تین چوہے یا چھ یا زیادہ