عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کرتے وقت اکثر لوگ ہاتھ کہنیوں تک کھلے رکھتے ہیں، اور چونکہ کام کرنے والوں کااکثر سر بھی کھلا رہتاہے جس پر بالمعموم صرف غبار پڑتا ہے اس لئے سر پر صرف مسح کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ ہاتھ پھیرنے سے گردوغبار دور ہوکر صاف ہوجائے اسی طرح کانوں اور گردن کے مسح کاحکم ہے کیونکہ یہ بھی سرکے متصل ہیں ان اعضا کے مسح کرنے میں یہ بھی حکمت ہے کہ دھونے میں حرج ومشقت ہے اس لئے حرج کو رفع کردیاگیا۔ پھر دونوں پائوں ٹخنے سمیت دھونے کاحکم ہے کیونکہ چلنے پھرنے کی وجہ سے زمین کے قریب ہونے کے باعث پائوں کاگرد آلود ہونا اور پسینہ آنے کی و جہ سے کیثف ہوجانے کا زیادہ امکان رہتاہے اس لئے ان کو دھونے کا حکم ہوا اور سب کے بعد میں دھونے کا حکم اس لئے ہوا تاکہ اشرف اعضا کے بعد ان کو ہاتھ لگے، یہ وضو میں چند اعضا کو دھونے اور ان کی ترتیب میں مصلحت کا بیان ہوا۔ (احکام اسلام کی عقل کی نظر میں تصرفاً) بظاہر وضو میں چند معمولی اعضا دھوئے جاتے ہیں مگر درحقیقت اس سے ایسی دینی ودنیوی اور ظاہری وباطنی پاکی و صفائی حاصل ہوتی ہے کہ جس سے زیادہ خیال میں نہیں آسکتی، دینی وباطنی پاکی تویہ ہے کہ اس سے انسان گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا اور دنیا وی وظاہری صفائی تو ظاہرہی ہے اوراس ظاہری صفائی سے صحت وتندرستی حاصل ہوتی ہے کیونکہ نمازکے پانچ اوقات ہیں ہر وقت کے وضو میں ہر عضو کو تین تین بار دھویا جاتاہے اس لئے ہر عضو دن رات میں پندرہ مرتبہ دھویا جائے گا اس سے اعضا پر میل وگندگی رہنے کا کوئی امکان نہیں رہے گا جس کانتیجہ لازمی طور پر تندرستی کا حاصل ہونا ہے۔ (ایضاً)