عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رویت کا اعتبار ہے اور طرفین کی دلیل رسولﷺ کا یہ فرمان ہے کہ چاند دیکھ کر رمضان کے روزے شروع کرو اور چان دیکھ کر رمضان کے روزے رکھنے ترک کرو ۔پس روزہ رکھنا شروع کرنے یا روزہ رکھنا ترکا کرنے کا حکم رویت کے بعد ہییعنی حدیث شریف سے روزہ رکھنے اور افطار کرنے پر چاند کی رویت کا مقدم ہونا واجب معلوم ہوتا ہے اور صحابہ کرام و تابعین اور ان کے بعد والے محدثین و فقہا کے نزدیک اس حدیث کا جلدی ذہن یں آنے والے۔(واضح)مطلب یہی ہے کہ اس سے ہر مہینے آخری دن کے غروب آفتاب کے بعد کی رویت مرادہے پس امام ابو یوسفؒ کے قول کے مطبق روزہ رکھنا شروع کرنے اور روزہ ترک کرنے کا وجوب رویت ہلال پر مقدم ہوجائے گا اور یہ نص کے خلاف ہے اور امام ابو یوسفؒ کے قول کی دلیل یہ ہے کہ بظاہر ہلال زوال سے پہلے عادۃ نظر نہیں آتا لیکن جبکہ وہ دو رات کا ہو تو نظر آجاتا ہے پس یہ بات ہلال رمضان میں اس دن کو رمضان کا دن ہونا واجب کرتی ہے اور ہالال شوال مٰن اس دن کو عید الفطر کا دن ہونا لازمی قرار دیتی ہے اور مختار طرفین کا قول ہے ۔ہاں اگر انتیس تاریخ کو زوال کے بعد چاند دیکھا جائے تو بالا تفاق یہ سمجھا جائے گا کہ وہ چاند گو یا تیسویں شب کو دیکھا گیا ہے اور ہمارے فقہا کا اختلاف اس چاند مٰں ہے جو تیس تاریخ کو زوال سے قبل دیکھا گیا ہو پس وہ چاند امام ابو حینفہؒ و امام محمد ؒ کے نزدیک آنے والی رات کا ہے اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک گذشتہ رات کا ہے اور طرفین کا قول مختار ہے لیکن اگر اس کے دیکھنے سے لوگ روزہ افطار کر دیں تو ان پر کفارہ واجب نہیں ہے اس لئے کہ انہوں نے تاویل کی بنا پر افطار کیا ہے۔ اور بعض کے نزدیک ان پر کفارہ واجب ہوگ کیونکہ جس تویل کی بنا پر انہوں نے افطار کیا ہے ۔صحیح نہیں ہے اس لئے کہ حدیث میں افطر والرئویتہ سے مراد یہ ہے کہ افطار کے وقت یعنی