عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شافعی ؒ نے جو اس بارے میں نجومیوں کے حساب کو کعتبر قرار دیا ہے اور اس پر عمل کو جائز قرار دیا ہے تو یہ قول مردود ہے متاخرین کی ایک جماعت نے اس کی تدید کی ہے اور خود اس کے ہم مذہب متاخرین فقہا نے بھی اس کی تردید کی ہے ان میں سے علامہ ابن حجر اور علامہ الرملی ہیں جنہوں نے منہاج کی شرح مٰں اس قول کو رد کیا ہے ۔معراف الداریہ میں یہ ہے کہ منمین کا قول بالا جماع معتبر نہیں ہے جس نے ان کا قول مان کر روزے شروع کئے یا عید کی اس نے شرع شریف کی مخالفت کی اور ھاسب بھی نجم کے حکم میں ہے اس کے قول پر بھی عمل نہیں کیا جائے گا۔منجم اور ھاسب میں فرق یہ ہے کہ منجم وہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ فلاں شروع مہینے میں فلاں ستارہ طلوع کرے گا۔اور حاسب وہ جو چاند کی منازل پر اعتماد کرتا ہے اور اس کی سیر کو اندازہ کرت ہے ۔پس نجومیوں اور ھساب دانوں کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور ان کے حساب کے مطابق نہ ان پر روزہ رکھنا واجب ہے اور نہ ان پر واجب ہے جو ان کی تصدیق کریں اوعر یہی جمہور کا مذہب ہے اور اسی طرح چاند کی رویت تجربہ سے بھی ثابت نہیں ہوتی خواہ وہ تجربہ کتنا ہی معتبر ہو جیسا کہ وہ مشہور قول جو حضرت علی ؓ کی طرف منسوب ہے اور وہ مشہور قول جو حضرت مام جعفر صادق ؓ کی طرف منسوب ہے پس اگر مثلا رمضان کا مہینہ پنجشنبہ کے دن شروع ہوا اور عرفہ بھی پنجشنبہ کے دن ہوا تو وہ دن عرفہ کا ہوگا قربانی کا نہ ہوگا حتی کہ اگر کوئی شخص حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے اس دن قربانی کرے گا تو جائز نہ ہوگی اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کا وہ مشوہر قول یہ ہے کہ تمہاری قربانی کا دن وہی ہے جو تمہارے روزے کا دن ہے ۔اس قول پر اعتماد صحیح نہیں ہے اس