عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چاند کی رویت میں کتنے آدمیوں کا قول مانا جائے جیسا کہ اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ ذی الحجہ اور ذی قعدہ کا چاند بھی انتیس تاریخ کی شام کو غروب آفتاب کے وقت لوگوں پر چاند ک تلاش کرنا (دیکھنے کی کوشش کرنا)واجب ہے اگر چاند نظر آگیا تو اس روز سے روزہ رکھیں اور اگر ابر غبار وغیرہ ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کریں اس کے بعد رمجان کے روزے شروع کریں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صومو لرویتہ وافطر والرویتہ فان عم علیکم فاکملو عدہ شعبان ثلاثین یوما رواہ البخاری ۲۔ نجومیوں میں سے جو لوگ سمجھ دار تجربہ کار اور عادل ہوں ان کے قول ک اعتبار کیا جائے یا نہیں اس بارے میں صحیح یہ ہے کہ ان کا قول قبول نہیں کیا جائے گا اور نجومی کو خود بھی اپنے حسب پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔ یعنی صحیح مذہب کی بنا پر لوگوں پر روزہ رکھنا یا روزہ نہ رکھنا فرض ہونے کے بارے میں بالا جماع منجمین ے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔اگر چہ وہ عادل ہوں اس لئے کہ شارع علہ الصلوۃ والسلام نے حساب کو معتمد قرار نہیں دیا بلکہ یہ فرما کر چاند کے بارے میں حساب کو بالکل لغو قرار دیا یا کہ ہماری امت ان پڑھ ہے ان کی اکثریت نہ لکھنا جانتی ہے مہینہ اتنے تیس دن اور اتنے انتیس دن کا ہوتا ہے انگلیوں کے اشارے سے اس کی تفصیل فرمادیجئے جیسا کہ حدیث شرف میں آیا ہے (اور یہ بھی فرمایا کہ چاند دیکھ کر روزے رکھو یا شعباہ کے تیس دن پورے کرے روزے شروع کرو پس روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے واجب ہونے میں چاند کا دکھائی دینا شرط ہے اس بارے میں نجومیوں اور حساب دانوں کا قول نہیں لیا گا اگرچہ وہ بہت ہوں اور سوائے شاذونادر کے امام (ابوحنیفہؒ)اور امام شافعی ؒ کے تمام اصحاب اس بات پر متفق ہیں کہ نجومیوں و ھساب دانوں کے قول پر چاند کے بارے میں کوئی اعتماد نہیں ہے اور امام سبکی