عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
پانی سے غسل دیتے اس کی برکت سے اس کی شفائے عاجل حاصل ہوجاتی ۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ جو شخص بیمار ہوجاتا ہم اس کو تین روز بیرِ بُضاعہ کے پانی سے غسل دیتے تو وہ صحت یا ب ہوجاتا، یہی وہ کنواں ہے جس کی بابت صحابہ کرامؓ نے آنحضرت ﷺ سے مسئلہ پوچھا تھا کہ لوگ اس میں خون آلود کپڑے اور نجاستیں ڈال جاتے ہیں ہم لوگ اس سے وضو کریں یا نہ کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک اسکے پانی کا مزہ یا بوُ یا رنگ نہ بدل جائے کچھ حرج نہیں ہے اس کا پانی پاک ہے ۱؎ یہ بہت بڑا کنواں تھا جو جاری پانی کے حکم میں تھا یہ کنواں بنی ساعدہ کی ملکیت تھا جن کا وہ سقیفہ ( چبوترہ ،بیٹھک ) تھا جس میں حضرت صدیق اکبرؓ کے ہاتھ پر مسلمانوں نے خلافت کی بیعت کی تھی ، اس کے آس پاس تمام کنوؤں کا پانی کھاری ہے مگر اس کا پانی شیریں وپاکیزہ ،بہت گہرا اور وافر ہے ۲؎۔ بیرِ بضاعہ اور سقیفہ بنی ساعدہ میں صرف ایک تنگ کوچہ حائل ہے اور کوچہ سے ۲۲۔۲۳ ؍گز کے فاصلہ پر سقیفہ ہے جو دوطرفہ کھلا ہوا ہے ، یہ مسقف چھتہ کی طرح کی بیٹھک کا نام ہے ، یہ کنواں اور سقیفہ دونوں بنی ساعدہ کی ملکیت تھے ۳؎ یہ کنواں سیاہ سڈول پتھروں سے مضبوط بنا ہوا ہے ، یہ کنواں اب بھی موجود ہے اور بستانِ بضاعہ اس کنوئیں کے سامنے قبلہ کی طرف ہے بُضاعہ کا لفظ باغ اور کنواں دونوں کے لئے اہلِ مدینہ میں تواتر کے ساتھ مشہور ہے ۔ آج کل یہ کنواں محفوظ اور اوپر سے چھتا ہوا ہے اور سیمنٹ سے بنا ہوا ہے اس کے منہ میں ایک کھڑکی ۲؍۱۔۱ میٹر مربع بنی ہوئی ہے جس کا دروازہ لوہے کا ہے اس کنوئیں پر مشین لگی ہوئی ہے جس کے ذریعے اس کا پانی نکال کر حوض اور دوباغوں کو سیراب کرتے ہیں ۴؎