عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دونوں یتیم بچوں کو بلایا تاکہ ان سے یہ جگہ مسجد کے لئے خرید لی جائے، ان دونوں نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! آپ یہ زمین ہم سے بلا قیمت قبول فرمالیجئے لیکن آپ نے بلا قیمت لینے سے انکار فرمایا، آخر اس قطعہ زمین کی قیمت دس دینار اندازہ کی گئی جس کی ادا ئیگی کے لئے آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کو فرمایا اور انہوں نے دس دینار ان بچوں کو ادا کردیئے، پھر زمین کو صاف وہموار کرکے اس مسجدِ مبارک کی بنیاد رکھی گئی اور مقدس ترین مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کے ساتھ رسول اﷲ ﷺ بھی بہ نفسِ نفیس شریک ہوئے ، کچی اینٹوں سے دیواریں بنائی گئیں اور دروازے کے بازو پتھر سے بنائے گئے کھجور کے تنوں کے ستونوں پر کھجور کی شاخوں اور پتوں سے چھت تیار کی گئی جس کو گارے سے لیپ دیا گیا، یہ چھت اس قدر کمزور تھی کہ بارش کا پانی اندر ٹپکتا تھا، فرش کچا ہونے کی وجہ سے کیچڑ ہوجاتی تھی اور چھت کی گیلی مٹی لوگوں کے سروں پر گرتی تھی ، یہ مسجد جس کی شان میں ’’لَمَسْجِد’‘ اُسِّس عَلَی التَّقْویٰ مِنْ اوََّلِ یَوْمٍ ‘‘ وارد ہوا ہے اور جو اسلامی عظمتوں کا مرکز ہے اپنی سادگی میں بے مثال تھی ، مسجد کے اس چھت والے حصے کے علاوہ باقی کھلا صحن تھا، اس وقت اس مسجد شریف کا طول وعرض تقریباً ستر ذراع× ساٹھ ذراع تھا، فتح خیبر کے بعد ۷ ھ میں آنحضرت ﷺ نے اس مسجد میں توسیع فرمائی حتیٰ کہ مربع شکل کی ہوگئی جس کا رقبہ سو×سووذراع یا اس سے کم تھا ۔ پہلی تعمیر کے وقت قبلہ بیت المقدس کی سمت تھا اس لئے اس سمت کو چھوڑ کر باقی تینوں جانب دیوار وں میں ایک ایک دروازہ بنایا گیا یعنی ایک جنوب کی جانب اور دوسرا مغرب کی جانب جو بابِ عاتکہ کہلاتا تھا اور موجودہ باب الرحمۃ کے محاذی تھا، اور تیسرا مسرق کی جانب جوبابِ آلِ عثمان کہلاتا ہے اور اب اس کوباب ِ