عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زمانہ میں شہید ہوئے تھے، بقیع شریف سے واپسی پر ان سب کی بھی زیارت کرے، اور سیدنا حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ ودیگرشہدائے احد کی زیارت بھی کیا کرے ان کا بیان آگے الگ آتا ہے ۔ جاننا چاہئے کہ اس بارے میں علما ء کرام کا اختلاف ہے کہ بقیع شریف کے کس مشہد سے زیارت کی ابتدا کرناافضل ہے ، بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کی زیارت سے ابتدا کرنا افضل ہے کیونکہ وہ اہلِ بقیع میں سب سے افضل اور ثالث الخلفاء ہیں ،اور بعض نے کہا ہے کہ سیدنا ابراہیم رضی اﷲ عنہ بن رسول اﷲ ﷺ کی زیارت سے ابتدا کرنا افضل ہے کیونکہ وہ آنحضرت ﷺ کے گوشہ جگر ہیں ، اور ہمارے حضرات میں سے علامہ فضل اﷲ بن الغوری نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عباس رضی اﷲ عنہ بن عبدالمطلب کے مشہد سے ابتدا کرنا اور حضرت صفیہ بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ کے مشہد پر ختم کرنا اولیٰ ہے اس لئے کہ باہر سے اندر آنے والے کو مشہد حضرت عباس رضی اﷲ عنہ پہلے آتا ہے اس لئے ان پر سلام پڑھے بغیر گزرنا ایک گو نہ ستم ہے اور یہ اس وقت ہے جبکہ کسی اور قبر کے پاس سے نہ گزرے پس اولیٰ یہ ہے کہ ان ( حضرت عباس رضی اﷲ عنہ) سے شروع کرے یعنی پہلے ان پر اور ان تمام حضرات پر جو اس مشہد میں مدفون ہیں جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے سلام کہے اس کے بعد ان حضرات پر یکے بعد دیگرے پر سلام پڑھتا جائے جو جاتے وقت اس کے راستہ میں آتے جائیں ، اور اسی طرح لوٹتے وقت جو راستہ میں آتے جائیں ان پر سلام پڑھتا رہے اورواپسی میں حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا پر ختم کرے، ملا رحمۃ اﷲ سندھی اور ملاعلی قاریؒ نے اسی کو اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ زائر کے لئے یہ سہل ہے اور تعظیم کے لحاظ سے بھی یہ صورت بہتر ہے ، اور علامہ ابن حجر مکی ؒ نے ایضاح المناسک میں لکھا ہے کہ بقیع شریف کی زیارت کو