عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الَابصَار(سورۃ انعام:۱۰۳) ’’نگاہیں اس (اللہ تعالیٰ) کو نہیں دیکھ سکتیں اور وہ تمام ابصارومبصرات کودیکھ رہا ہے‘‘۔ اور ان اسما ء کی کیفیت ہم نہیں جانتے اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتاہے وَمَا یَعلَمُ تَاوِیلَہُ اِلَّا اللُّٰہ، (آل عمران :۷) ’’اور اس کی تاویل اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ‘‘۔ فائدہ :ارباب حقائق لکھتے ہیں کہ اسمائے الٰہی سے بندے کانصیب یہ ہے کہ ان کے ساتھ تخلق وتشبہ حاصل کرے تاکہ ان اسماء کی تجلیات کی بدولت اسفل السافلین کے گڑھے سے نکل کرکرمقام اعلیٰ علیین پر پہنچ جائے، پس چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفت رب العالمین ہے توبندہ بھی اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق کمزوروں کی تربیت سے غافل نہ رہے اور وہ ارحم الراحمین ہے تو بندہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ رافت ورحمت سے پیش آئے اور اسی طرح صفات مختصہ کے علاوہ ہرہرصفت کامظہر بننے کی کوشش میں لگارہے تاکہ صحیح معنی میں خلافت الٰہی کا مصداق ہو اور اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ اٰدَمَ عَلٰی صُورَتِہٖ، ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا‘‘ کاراز آشکار ہوجائے۔ حدیث کی شرح کرنے والوںنے ہر ہر اسم کے ساتھ تخلق کی شرح کردی ہے، تفصیل کے لئے مظاہر حق وغیرہ ملا حظہ فرمائیں۔ مسئلہ: اس کا کلام آواز سے پاک ہے اور یہ قرآن کریم جس کوہم اپنی زبان سے تلاوت کرتے اور مصاحف میں لکھتے ہیں اُسی کاکلام قدیم بلا صوت ہے، علیٰ ہذالقیاس دوسری آسمانی کتب بھی۔ اور یہ ہمارا پڑھانا، لکھنا اور یہ آواز حادث یعنی ہمارا پڑھنا حادث ہے اور جو ہم نے پڑھاقدیم ہے،اور ہمارا لکھنا حادث اور جو لکھا قدیم ہے، ہمارا سننا حادث اور جو ہم نے سنا قدیم ہے، اور ہمارا حفظ کرنا حادث اور جو حفظ کیا قدیم ہے، یعنی متجلّی قدیم ہے اور تجلی حادث۔