عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گھر لانا مطلقا ً جائز ہے اور اسی طرح حل کی مٹی کو حرم میں داخل کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی کراہت نہیں ہے ۔ حرم شریف کو مٹی باہر لانے کی اجازت اس وقت ہے جبکہ تبرک کے لئے تھوڑی سی ہو اور حرم شریف کی زمین میں کسی قسم کا نقصان واقع نہ ہو ورنہ جائز نہیں ہے، اور امام شافعیؒ کے نزدیک حرم شریف کی مٹی کا باہر لے جانا حرام ہے اور کسی دوسری مٹی کا اس میں داخل کرنا مکروہ ہے ۸؎ اور اسی طرح ہر وہ چیز جس سے حرم میں نفع حاصل کرنا جائز ہے اس کا حرم سے باہر لے جانا بھی جائز ہے ۹؎ بیت اﷲ شریف کی مٹی کے بارے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ اگر اس قدر تھوڑی سی مٹی تبرک کے لئے باہر لے جائے جس سے عمارت کو نقصان نہ ہو مثلاً گڑھا وغیرہ نہ بن جائے تو جائز ہے ورنہ جائز نہیں اور علامہ ابن وھبان نے بیت اﷲ شریف کی مٹی لے جانے سے منع کرنے کو درست کہاہے کیونکہ جاہل لوگ اگر ذراذرا سی مٹی بھی اٹھائیں گے تو بیت اﷲ شریف کی عمارت کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہے اور اﷲ تعالیٰ ہمیں اس غلط فعل سے بچائے ۱۰؎ حدود حرم کے پیلو (جال) یا کسی اور درخت کی مسواک بنانا جائز نہیں ہے ۱۱؎ (۲) علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ آبِ زمزم اپنے ہمراہ باہر لے جانا جائز ہے بلکہ لوگوں کو تبرک کے طور پر دینے کے لئے اپنے شہروں کو لے جانا مستحب ہے ۱؎(جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے)۔ (۳) خانہ کعبہ کے غلاف میں سے کاٹ لینا جائز نہیں ہے اگرچہ پرانا ہوگیا ہو اور اگر اس میں سے کچھ حصہ از خود گرگیا ہو وہ بھی فقرا کو دیدیا جائے اورپھر ان سے خریدنا جائز ہے ۔ بحرالزاخر میں ہے کہ غلافِ کعبہ میں سے کاٹنا، اس کو کسی دوسرے شہر کی طرف لے جانا، اس کی خریدوفروخت کرنا، اور اس کو قرآن مجید کے اوراق میں رکھنا جائز نہیں ہے،