عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دونوں کی علّت یکساں ہے اور بعض نے کہا کہ مکہ معظمہ میں مکروہ ہے لیکن مدینہ منورہ میں مکروہ نہیں ہے اور بعض نے کہا کہ امام ابو حنیفہؒ وصاحبین کا جو اختلاف مکہ معظمہ کے قیام کے بارے میں ہے (جو کہ اوپر بیان ہوچکاہے) وہی مدینہ منورہ کے بارے میں بھی ہے ۸؎ قلتِ ادب کے خوف کے باعث مکہ معظمہ کی طرح مدینہ منورہ میں مستقل قیام کے مکروہ ہونے پر ہی فتویٰ ہے، البتہ ادب واحترام اور وہاں کے حقوق قائم رکھتے ہوئے مدینہ طیبہ میں مستقل قیام اختیار کرنا اور وہاں مرنا بڑی سعادت ہے اور شفاعت ونجات کا وسیلہ ہے ۹؎ ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے جو شخص مدینہ منورہ کی تکلیف اور سختی پر صبر کرے گا میں قیامت کے روز اس کی شفاعت کروں گا اور مسند احمد وسنن ترمذی میں ہے کہ رسو ل اﷲ ﷺ نے فرمایا جس سے ہوسکے کہ مدینہ منورہ میں مرے تو وہ ضرور وہاں مرے پس بے شک میں وہاں کے مرنے والوں کی شفاعت کروں گا ۱۰؎ (۳) جمہور ائمہ کے نزدیک مکہ معظمہ میں مستقل قیام اختیار کرنا مدینہ منورہ کے قیام سے افضل ہے لیکن امام مالکؒ اور بعض شافعیہ کا اس میں اختلاف ہے ۔ لباب المناسک میں جو یہ کہا ہے کہ ’’ علما کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ مدینہ منورہ میں مستقل قیام اختیار کرنا مکہ معظمہ میں مستقل قیام کرنے سے افضل ہے اگرچہ نیک اعمال کا ثواب مکہ معظمہ میں زیادہ ہے‘‘۔ اسکی کوئی وجہ نہیں ہے اس لئے کہ جب مدینہ منورہ میں اعمالِ حسنہ کا ثواب مکہ معظمہ میں اعمالِ حسنہ کے ثواب سے کم ہے اور آنحضور ﷺ بھی پردہ فرماگئے ہیں تو مدینہ منورہ کی سکونت کو مکہ معظمہ کی سکونت پر فضیلت کس طرح ہوگی پس غور کرلیجئے ہاں البتہ اس بات پر اجماع ہے کہ مدینہ منورہ میں مرنا افضل ہے اور وہاں کی