عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
والدین کے حکم میں ہیںاور نفلی حج کا حکم اس کے خلاف ہے کہ والدین کی اطاعت مطلق طور پر نفلی حج سے اولیٰ ہے ۷؎ (۴) مسافر خانہ ( سرائے ) بنانا نفلی حج سے افضل ہے ۸؎ (۵) صدقہ پر حج نفل کی افضلیت کے بارے میں ہمارے ائمہ کا اختلاف ہے امام محمدؒ کے نزدیک اگر حج فرض ادا کرچکا ہے تو نفلی صدقہ نفلی حج سے افضل ہے تجنیس ومزید منیۃ المفتی میں اس قول کو مختار کہا ہے لباب المناسک میں بھی اسی پر اعتماد کیا ہے اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ اس قدر رقم صدقہ کرے جتنی حج میں خرچ ہوتی ہے اور اگر اس سے بہت کم صدقہ کرے تو بلا خلاف حج افضل ہے اس کی تصریح فتاوی بزازیہ میں کی گئی ہے اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک نفلی حج صدقہ سے افضل ہے اور امام ابوحنیفہؒ کا قول پہلے امام محمدؒکے قول کے مطابق تھا لیکن جب انہوں نے خود حج کیا اور اس سفر میں مختلف قسم کی مشقتیں دیکھیں جو نیکیوں میں اضافہ کرتیں ہیں تو پھر امام ابو یوسف ؒ کے قول کی طرف رجوع کرلیا اور فتویٰ دیا کہ نفلی حج صدقہ سے افضل ہے ، فتاویٰ خانیہ میں بھی اسی کو اختیار کیا ہے ،نفلی حج کا اجر نفلی صدقہ سے بہت بڑا ہے ،پھر صدقہ کا ،پھر غلام آزاد کرنے کا اجر ہے اھ ۱؎۔ علامہ رحمتی ؒ نے کہا کہ حق یہ ہے کہ اس مسئلہ میں یہ تفصیل ہے کہ جس میں حاجت ومنفعت زیادہ ہے وہی افضل ہے ۲؎۔ علامہ شامی ؒ نے منحۃ الخالق حاشیہ بحرالرائق میں کہا ہے کہ ہمارے زمانے میںنفلی صدقہ کو نفلی حج پر فضیلت دی جاسکتی ہے اس لئے کہ اس زمانہ میں حج کے سفر میں بہت سے ممنوعات کاارتکاب اور فواحش ومنکرات کا مشاہدہ ہوتا ہے اور غریب ویتیم لوگ صدقات کی طرف زیادہ ضرورت مند ہیں جبکہ مالدار لوگ