عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
دن یا رات میں کسی وقت ایک لمحہ کے لئے بھی وقوف عرفات کرلیا تو اس نے حج کو پالیا اور اس کا حج فوت یا فاسد ہونے سے محفوظ ہوگیا اس لئے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے (دس ذی الحجہ کی) فجر طلوع ہونے سے پہلے عرفہ (کا وقوف) پالیا تو بلاشبہ اس نے حج پالیا۔ اس کو طبرانی نے سند حسن کے ساتھ حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے۔ ۴؎ (۳) اگر وقوفِ عرفہ اس کے وقت میں نہ کرسکنے کی وجہ سے کسی شخص کا حج فوت ہوجائے تو اس شخص سے حج کے باقی افعال ساقط ہوجائیں گے اور اس پر واجب ہے کہ اسی احرام سے افعالِ عمرہ کی مثل افعال ادا کرکے اس حج کے احرام سے حلال ہوجائے خواہ وہ فوت شدہ حج صحیح ہو یا فاسد اور فرض ہو یا نذر (واجب) یا نفل ہو اور عذر سے حج فوت ہوا ہو یا بلاعذر سب کے لئے یہ حکم یکساں ہے لیکن بلاعذر فوت ہونے کی صورت میں وہ شخص گناہ گار ہوگا۔ پس وہ شخص جس کا حج فوت ہوا ہے اگر مفرد حج کے احرام میں تھا تو طواف و سعی کرے پھر سر کے بال منڈائے یا کتروائے (اس طرح وہ حج کے احرام سے باہر یعنی حلال ہوجائے گا) اور جب وہ افعالِ عمرہ کا طواف شروع کرتے وقت حجرِ اسود کو پہلا استلام کرے تو تلبیہ کہنا بند کردے کیونکہ وہ افعال کے اعتبار سے عمرہ ادا کررہا ہے اور اس پر آئندہ سال صرف حج کی قضا واجب ہے اور عمرہ قضا کرنا اس پر واجب نہیں ہے اور اس پر دم بھی واجب نہیں ہے البتہ دم ادا کرنا مستحب ہے جیسا کہ فتح القدیر اور تبیین میں مذکور ہے اور امام حسن بن زیاد رحمہ اﷲ نے کہا کہ اس پر دم واجب ہے اور یہی قول امام شافعی و امام مالک رحمہما اﷲ کا بھی ہے اور جس کا حج فوت ہوجائے اس پر طوافِ صدر بھی بالاتفاق واجب نہیں ہے۔ ۵؎