عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرے اوراس کے عمرہ کی وجہ سے اس پر کوئی عمرہ واجب نہیں ہے کیونکہ وہ شروع میں عمرہ پورا اداکرچکا ہے اور اس نے اپنے حج کے لئے جو طواف وسعی کی ہے اس سے وہ حلال نہیں ہوگا کیونکہ طوافِ قدوم کے بعد جو سعی اس نے کی ہے اس کا حج فوت ہونے کے بعد واقع ہونا واجب ہے اس لئے کہ سعی میں اصل یہ ہے کہ وقوفِ عرفہ کے بعد طوافِ زیات کے ساتھ واقع ہو اور بلا شبہ اس کا مقدم ہونا حج کے فوت ہونے سے محفوظ ہونے کی صورت میں اس لئے جائز کیا گیا ہے کہ کثرت ہجوم کی وجہ سے پیدا ہونے والی تکلیف دورہوجائے ۱؎ (۱۱) اور جس شخص نے دو حج اور دو عمروں کے احرام کو جمع کیا اور وہ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہونے سے قبل روک دیا گیا تو وہ قارن کی مانند ہے اور اگر مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہونے کے بعد روکا گیا تو ( بالاتفاق ) اس پر ایک ہی دم واجب ہوگا ۲؎ پس اگر کسی شخص نے دو حج یا دو عمروں کو جمع کیا ( یعنی اکٹھا احرام باندھا ) پھر اس کو مکہ معظمہ کی طرف روانگی سے پہلے روک دیا گیا تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس پر دو ہدی واجب ہوں گی یعنی وہ امام صاحبؒ کے نزدیک حدودِ حرم میں دو ہدی ذبح کرکے حلا ل ہوگا صاحبین کا اس میں خلا ف ہے جیسا کہ جمع بین النسکین میں گزرچکا ہے اور اگر مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہونے کے بعد روک دیا گیا تو اس پر بالاتفاق ایک ہی ہدی واجب ہوگی کیونکہ وہ مکہ معظمہ کی طرف روانگی کے ساتھ ایک کو ترک کرنے والا ہوجائے گا ۳؎ لیکن اگر روک دیا گیا اور ( پھر بھی) وہ روانہ ہوگیا یہاںتک کہ مکہ معظمہ پہنچ گیا تو امام صاحب ؒ کے قول پر وہ محصر نہیں رہا پس اگر وہ اعمال حج ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو صبر کرے یہاں تک کہ اس کا حج فوت ہوجائے پھر وہ عمرہ کے افعال ادا کرکے حلال ہوجائے ۴؎