عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سندھی رحمہ اﷲ نے طوالع الانوار میں اسی کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ امام رافعی ؒ نے اس کو ذکر کیا ہے اور اسی طرح علامہ طاہر سنبل نے ضیاء الابصار میں اسی کو اختیار کیا ہے ۱۱؎ پس ضرورت کے وقت اس پر عمل کی گنجائش ہے ۔ ۱۲؎ (۳) احرام باندھتے وقت یہ شرط کرلینے کا کوئی فائدہ نہیں کہ اگر محصر ہوگیا تو دمِ احصار بھیجے بغیر ہی احرام سے باہر ہوجائوں گا ۱۳؎ یعنی یہ شرط کرلینے سے نہ اس سے دم ساقط ہوگا اور نہ ہی ہدی (دم) بھیجے بغیر وہ احرام سے باہر ہوسکتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ محصر حدودِ حرم میں ہدی ذبح کراکر ہی احرام سے باہرہوسکتا ہے اس کے بغیر نہیں خواہ اس نے احرام باندھتے وقت یہ شرط کرلی ہو کہ احصار کے وقت ہدی ذبح کرائے بغیر ہی احرام سے باہر ہوجائے گا یا یہ شرط نہ کی ہو،کتب مذہب میں اسی کو صحیح قرار دیا گیا ہے اور ایضاح میں مذکور ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ نے کہا کہ یہ شرط کرنا دم ساقط ہونے کے لئے مفید ہے اور احرام سے باہر ہونے کے لئے مفید نہیں ہے اور کرمانی وسروجی نے امام محمد رحمہ اﷲ سے نقل کیا ہے کہ اگر کسی شخص نے احرام باندھتے وقت محصر ہونے کی صورت میں حرم میں ہدی ذبح کرائے بغیر احرام سے باہر ہونے کی شرط کرلی تھی تو اس کو ہدی کے بغیر احرام سے باہر ہونا جائز ہے۔ ۱۴؎ (۴) اور جب محصر نے ہدی کا جانور یا اس کی قیمت مکہ معظمہ بھیج دی تو اس پر ہدی کے ذبح ہونے تک احصار کے مقام پر ٹھہرے رہنا واجب نہیں ہے بلکہ اس کو اختیار ہے کہ وہ اپنے اہلِ و عیال کی طرف یا کہیں اور چلا جائے یا جس جگہ اس کو روکا گیا ہے وہیں ٹھہرا رہے، لیکن دونوں صورتوں میں جب تک اس کی ہدی کا ذبح ہونا متحقق نہ ہوجائے وہ احرام