عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جاتا ہے ۴؎ اور مذکورہ بالا مسئلہ کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اگر حلال شخص شکار کا جانور پکڑنے کے بعد اس کو لے کر حرم میں داخل ہوا پھر کسی دوسرے شخص نے اس کے ہاتھ سے اس جانور کو چھڑادیا تو چھڑانے والا اس کی قیمت کا ضامن نہیں ہوگا کیونکہ پکڑنے والے پر اس کا چھوڑدینا واجب تھا اگرچہ وہ اس کا مالک ہوگیا ہے اور اب اس کو اپنے گھر چھوڑنا اس کے لئے ممکن نہیں ہے اس صورت میں چھڑانے والا شخص زیادتی کرنے والا نہیں ہوگا غور کرلیجئے ۵؎ (۸) اگر کسی نے احرام باندھا اور اس کے گھر یا پنجرے میں جو اس کے ساتھ ہے شکار کا جانور ہے تواس پر اس جانور کا چھوڑنا واجب نہیں ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم احرام باندھتے تھے اور ان کے گھر میں شکار کے جانور اور پلے ہوئے جانور اورپرندے ہوتے تھے اور ان کو آزاد کرنا اُن سے منقول نہیں ہے پس صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے لے کر آج تک یہی رواج جاری ہے کہ وہ تابعین اور ان کے بعد کے لوگ اس حال میں احرام باندھتے تھے کہ ان کے گھروں میں پنجروں وبرجوں وغیرہ میں کبوتر ہوتے تھے اور ان کے پاس پالتو جانور ہرن وغیرہ اور پرندے ہوتے تھے جن کو وہ اس وقت آزاد نہیں کرتے تھے پس یہ بھی اس کے جواز کی ایک دلیل ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ شکار کے جانور کا محفوظ طور پر اپنی ملکیت میں باقی رکھنا جائز ہے جبکہ وہ حقیقی ہاتھ میں نہ ہو ، اوریہ اس جانور کے درپے ہونا نہیں جس کی ممانعت کی گئی ہے اس لئے کہ واجب شکار کے درپے نہ ہونا ہے اور اس کا گھر یا پنجرہ میں ہونا کسی طرح اس کے درپے ہونا نہیں ہے کیونکہ وہ گھر اور پنجرہ میں محفوظ ہے اس کے ہاتھ میں نہیں ہے البتہ اس کی ملکیت میں ہے ۶؎ اور پنجرہ میں ہونے کو مطلق طور پر بیان کیا گیا ہے پس پنجرہ خواہ اس کے ہاتھ میں ہو یا اس کے