عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ رمی انہی دنوں میں عبادت ہے اور جب تک یہ دن باقی ہیں رمی کااعادہ ممکن ہے پس ان دنوں کی متروکہ رمی ترتیب کے ساتھ کرے اور اپنے مقررہ وقت سے تاخیر کی وجہ سے امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک دم واجب ہوگا صاحبین کااس میں خلاف ہے ۷؎ پس اگر کل یا اکثر رمی کو دوسرے دن تک مؤخر کردیا تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کو دوسرے دن قضا کرے اور تاخیر کی وجہ سے دم بھی ادا کرے اور صاحبین ؒ کے نزدیک صرف قضا واجب ہوگی دم وغیرہ کچھ واجب نہیں ہوگا اور اگر اس دن کے بعد آنے والی رات تک مؤخر کیا تو بالاتفاق اس پر کچھ واجب نہیں ہوگا ۸؎ اس سے معلوم ہوا کہ ( امام صاحب کے نزدیک ) دم واجب ہونے کے لئے ترک کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ تاخیر سے بھی دم واجب ہوتا ہے خواہ ایک دن کی رمی کو اگلے دن تک مؤخر کرے یا کل دنوں کی رمی آخری دن تک مؤخر کرے البتہ اس دن کے بعد آنے والی رات تک مؤخر کرنے سے اس پر کچھ واجب نہیں ہوگا جیسا کہ رمی کے بیان میں گزرچکاہے ۹؎ اور اگر دوسرے روز قضا نہ کیا اور نہ اس کے بعد کسی اور دن قضا کیا حتیٰ کہ رمی کے تمام دن گزرگئے اور ایام تشریق کے آخری دن یعنی رمی کے چوتھے دن کا سورج غروب ہوگیا تو رمی ترک کرنے کی وجہ سے بالاتفاق اس پر دم واجب ہوگا ۔ حاصل یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ( ہر روز کی ) رمی کا وقت معین ہے ( یعنی ہر روز کی رمی دوسرے روز کی صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے پہلے کرلینا واجب ہے ) اور صاحبین کے نزدیک اس کاوقت معین نہیں ہے پس اگر ایک دن کی رمی دوسرے دن تک مؤخر کردی تو امام صاحبؒ کے نزدیک اس پر اس رمی کی قضا اور دم واجب ہوگا اور صاحبین کی نزدیک صرف رمی کی قضا واجب ہوگی اور کچھ واجب نہیں ہوگا کیونکہ ان کے نزدیک رمی کا وقت تمام ایامِ رمی ہیں لیکن جب رمی