عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا ہے اور بعض نے کہا کہ ان بالوں کو رکھنا مکروہ ہے کیونکہ اس میں عجمیوں بلکہ مجوس واہلِ کتاب کے ساتھ تشبہ ہے اور یہ زیادہ درست ہے اور اس کی تفصیل حاشیہ نوح آفندیؒ میں ہے۔اورحضرت عبداﷲ ابن عمرؓ مونچھ کے بالوں کو اس طرح کاٹ دیتے تھے جس طرح بکری یا اونٹ کے بال کاٹے جاتے ہیں ، بحرالرائق میں طحاوی ؒ کے قول کو ترجیح دی گئی ہے اور ڈاڑھی کو بڑھانا صحیحین میں وارد ہے یہاں تک کہ کثیر وگنجان ہوجائے ۔ غایۃ البیان میں ہے کہ ڈاڑھی بڑھانے کے بارے میں علما میں اختلاف ہے بعض نے کہا کہ نہ اس کو کترائے اور نہ چھوٹا کرے بلکہ جہاں تک بڑھے بڑھنے دے اور بعض نے کہا کہ ایک مُشت (قُبضہ) سے زیادہ ہوجائے تو اس زائد حصہ کو کٹا نا سنت ہے ، امام محمد ؒ کی کتا ب الآثار میں امام ابو حنیفہؒ سے اسی طرح (یعنی ایک مشت سے زائد کے کٹانے کا سنت ہونا) منقول ہے اور کہا ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور وہاں حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہما سے مذکور ہے کہ وہ ایسا ہی کرتے تھے اور ڈاڑھی پر تفصیلی کلام کتا ب الصوم کے مفسداتِ صوم کے بیان میں گزرچکا ہے ۳؎ اور کتاب الاصل میں بغل کے بالوں کے متعلق اکھاڑنے کا ذکر ہے ، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان کو مونڈنا حرام نہیں ہے ۴؎ (یعنی بغل کے بالوں کا مونڈنا جائز ہے ) اور عانہ ( زیرِ ناف) کے بالوں کا مونڈنا سنت ہے ،حدیث شریف میں جن دس چیزوں کو سنت کہا ہے ان میںسے زیرِ ناف کے بالوں کو استرے سے مونڈنا بھی ہے ۵؎ زیرِ ناف کے بالوں کی حد میں اختلاف ہے مشہور قول جس پر جمہور علما ہیں یہ ہے کہ وہ مرد اور عورت کی پیشاب گاہ کے ارد گرد کی جگہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ پیشاب وپاخانہ کے مقام اور ان کے اردگر کی جگہ کے بالوں کو مونڈنا سنت ہے ، ان بالوں کو مونڈکر یا کاٹ کر یا اکھاڑ کر یا بالصفا وغیرہ کسی بھی