عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
موجود نہ ہوتی تو فقہا اس صورت میں بھی جزا واجب کرتے ۱؎ پس سِلے ہوئے کپڑے پہن کر احرام باندھنے کے بعد ان کو پہنے رہنا ایسا ہی ہے گویا کہ احرام باندھنے کے بعد پہنے ہیں ۲؎ یعنی اگر وہ ایک دن یا رات پہنے رہا تو دم واجب ہوگااور اس میںاس طرف اشارہ ہے کہ اگر سلے ہوئے کپڑے پہن کر احرام باندھا تواس کا احرام صحیح ہے اگرچہ بلاعذر ایسا کیا ہو،عوام الناس یہ جو سمجھتے ہیں کہ سلے ہوئے کپڑے پہن کر احرام باندھیں تو احرام نہیں بندھتا ان کا یہ خیال غلط ہے کیونکہ سلے ہوئے کپڑے اتاردینا احرام کے واجبات میں سے ہے احرام کے صحیح ہونے کی شرطوں میں سے نہیں ہے ۳؎ (اس لئے اس کا احرام بندھ جائے گا لیکن ترکِ واجب کی وجہ سے جزا لازم ہوگی اور بلا عذر ایسا کرنے سے گنہگار بھی ہوگا، مؤلف) (۴) مناسک کے بعض شارحین نے لکھا ہے کہ اگر کسی نے سلے ہوئے کپڑے پہن کر کسی منسک مثلاً عمرہ کا احرام باندھا اور عمرہ کے افعال ایک دن سے کم میں پورے کرکے عمرہ کے احرام سے حلال ہوگیا تو اس کے بارے میں کوئی صریح نص دیکھنے میں نہیں آئی اور فقہا نے لکھا ہے کہ ’’ کامل انتفاع (نفع اٹھانا ) جس سے دم واجب ہوتا ہے اس وقت حاصل ہوتا ہے جب سلا ہوا کپڑا کامل دن پہنے رہے‘‘۔ اس قول کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اس پر صدقہ واجب ہونا چاہئے البتہ اگر اس کے خلاف نص مل جائے تو اس پر عمل کیا جائے ، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ’ ’سلے ہوئے کپڑے اُتارنا مطلق طور پر واجب ہے خواہ اس کے احرام کا زمانہ طویل ہو یا قلیل ، اور ایک دن یاایک رات کی مقدار اس وقت ہے جبکہ احرام کا زمانہ طویل ہو لیکن اگر احرام اس سے کم زمانہ تک رہے تو اس کو منسک یعنی عمرہ میں ارتفاق کامل حاصل ہوگیا پس وہ واجباتِ احرام میں سے ایک واجب کا تارک ہوا لہٰذا